بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
عرض مرتب
لیجئے احتساب قادیانیت کی انیسویں جلد پیش خدمت ہے۔ اس جلد میں مولانا حافظ محمد ابراہیمؒ میر سیالکوٹی کے بارہ(۱۲)، مولانا مفتی عبداللطیفؒ رحمانی کے تین(۳) اور حضرت مولانا ظہور احمدؒ بگوی کا ایک رسالہ یعنی کل سولہ(۱۶) رسائل وکتب شامل ہیں۔ پہلے نمبر پر حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیمؒ میر سیالکوٹی کے رسائل شامل اشاعت ہیں۔
ہمارے مخدوم وممدوح حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیمؒ میر سیالکوٹی معروف اہل حدیث راہنماء تھے۔ مزاجاً معتدل اور صالح طبیعت کے انسان تھے۔ ایک اچھے انسان کی تمام خوبیوں کے حامل تھے۔ حق تعالیٰ نے ان کو خلوص دللہیت کی نعمت سے بھرپور نوازا تھا۔
تحریر وتبلیغ کی طرح فن مناظرہ کے بھی شناور تھے۔ قرآن وحدیث اور دیگر علوم دینیہ پر بھرپور دسترس رکھتے تھے۔ اپنے زمانہ میں ردقادیانیت کے امام تھے۔ آپ نے ردقادیانیت پر ’’شہادت القرآن فی اثبات حیات عیسیٰ علیہ السلام‘‘ کے نام پر دو حصوں میں کتاب لکھی۔ جو مرزاقادیانی کی زندگی میں آپ نے شائع کی۔ مرزاقادیانی اس کا جواب نہ دے پایا۔ حالانکہ اسے جواب دینے کے لئے للکارا گیاتھا۔ یہ کتاب نایاب ہوگئی تو اسے پھر قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے حکم پر مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی شعبہ نشرواشاعت سے شائع کیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر سلسلہ عالیہ قادریہ کے شیخ المشائخ حضرت سید نفیس الحسینی دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ ’’میں اس مجلس میں موجود تھا جس مجلس میں حضرت رائے پوریؒ نے حضرت جالندھریؒ سے اس کتاب کی اشاعت کے لئے فرمایا۔ مگر کتاب کا حصول اور طباعت کی اجازت کا مولانا حافظ محمد ابراہیم میرؒ سیالکوٹی کے ورثاء سے مرحلہ درپیش تھا۔ چونکہ میرا (سید نفیس الحسینی مدظلہ) آبائی تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ اس لئے اپنے دل میں فیصلہ کرلیا کہ یہ مرحلے میں طے کروںگا۔ چنانچہ علی الصبح اﷲتعالیٰ کا نام لے کر سیالکوٹ چل نکلا۔ مولانا ابراہیم ؒمیر کی نرینہ اولاد نہ تھی۔ آپ کے بھتیجے مولانا محمد عبدالقیوم میرؒ (والد ماجد پروفیسر ساجد میر) آپ کے وارث تھے۔ ان کے دروازہ پر دستک دی۔ باہر تشریف لائے۔ میں (سید نفیس الحسینی مدظلہ) نے ان سے حضرت رائے پوری کی خواہش کا اظہار کیا۔ کتاب اور اجازت اشاعت طلب کی، وہ الٹے پاؤں گھر گئے۔ لائبریری سے وہ کتاب اٹھا لائے اور یہ وہ نسخہ تھا جس پر مصنف مرحوم (مولانا محمد ابراہیم میر) نے ضروری اضافے وترامیم کی تھیں۔ لیکن اس نسخہ کے سرورق پر مصنف مرحوم کا نوٹ لگا تھا۔ ’’بد لحاظ بن جاؤ لیکن کتاب کو لائبریری سے مت باہر جانے دو‘‘ یہ نوٹ پڑھ کر کتاب کے حصول کی بابت مایوسی ہوئی۔ لیکن قدرت کا کرم کہ اگلے ہی لمحہ میں میر عبدالقیومؒ نے فرمایا کہ چھپوانا مطلوب ہے اور حضرت رائے پوریؒ کا حکم ہے۔ لیجئے کتاب بھی حاضر اور چھاپنے کی بھی اجازت ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ کتاب لے کر خوشی خوشی دوپہر تک لاہور حضرت رائے پوریؒ کی خدمت حاضر ہوگیا۔ حضرتؒ نے اس کارروائی پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور دعائیں دیں اور کتاب کی کتابت اپنی نگرانی میں کرانے