Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

98 - 142
	 حضرت سید نفیس الحسینیؒ نے پھر سے گفتگو کا آغاز کیا۔ ’’فرمایا کہ ایک بار حضرت امیر شریعتؒ نے خواب دیکھا کہ مولانا انور شاہ کشمیریؒ تشریف لائے اور فرمایا کہ ایک بات آپ سے کہنی ہے۔ اتنے میں قاضی صاحبؒ نے حضرت امیر شریعتؒ کو جگا دیا۔ اب حضرت امیر شریعتؒ پریشان کہ حضرت کشمیریؒ نے کیا بات فرمانی تھی۔ حضرت رائے پوریؒ سے تعبیر پوچھی تو حضرت رائے پوریؒ نے فرمایا کہ ایک سید (کشمیری صاحبؒ) دوسرے سید (حضرت امیر شریعتؒ) سے اپنے ناناﷺ کی ختم نبوت کی ہی بات کہنی تھی اورکیا۔ اس پر امیر شریعتؒ جھوم اٹھے۔ فرمایا باالکل انشراح ہوگیا۔ یہی بات کہنا چاہتے ہوںگے۔‘‘
	ض…	۲۴ویں تروایح۱۴۲۳ھ کے بعد فرمایا کہ: ’’سیالکوٹ کے علامہ میر حسنؒ بڑے عالم تھے۔ ان کے شاگرد مولوی ظفر اقبال بڑے کاتب تھے۔ حمایت اسلام کے لئے قرآن مجید لکھا۔ مولوی ظفر اقبال سے میری ملاقاتیں رہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ علامہ میر حسنؒ جب طلباء کو پڑھاتے خاص بات کہنی ہوتی تو طلباء سے فرماتے کہ کتابیں بند کردو۔ ایک دن علامہ میر حسنؒ نے طلباء سے فرمایا کہ مرزاغلام احمد قادیانی بہت ہی ذلیل قسم کا بے دین تھا۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے زیر استعمال جو قرآن مجید کا نسخہ تھا اس کو میر صاحب فرماتے ہیں میں نے دیکھا ہے۔ ختم سورۃ الناس کے بعد خالی جگہ پر مرزاقادیانی نے قوت باہ کا نسخہ لکھا ہوا تھا۔ علامہ میر حسنؒ صاحب کے خاندان کے کچھ افراد اہل سنت تھے۔ کچھ اہل حدیث، کچھ قادیانی سحرکاشکار ہوگئے۔ علامہ میر حسنؒ نے وصیت کی کہ میرا جنازہ میر ابراہیم صاحبؒ سیالکوٹی پڑھائیں۔ اس لئے کہ وہ مرزائیت کے خلاف بڑے مناظر تھے۔‘‘ (لولاک ذی الحجہ۱۴۲۳ھ)
	ض…	’’اہل حدیث رہنما مولانا ابراہیم میرؒ سیالکوٹی نے رد قادیانیت پر ’’شہادت القرآن فی اثبات حیات عیسیٰ علیہ اسلام‘‘ کے نام پر دو حصوں میں کتاب لکھی۔ جو مرزاقادیانی کی زندگی میں آپ نے شائع کی۔ مرزاقادیانی اس کا جواب نہ دے پایا۔ حالانکہ اسے جواب دینے کے لئے للکارا گیا تھا۔ یہ کتاب نایاب ہوگئی تو اسے پھر قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے حکم پر مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی شعبہ نشرواشاعت سے شائع کیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر سلسلہ عالیہ قادریہ کے شیخ المشائخ حضرت سید نفیس الحسینیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’میں اس مجلس میں موجود تھا۔ جس مجلس میں حضرت رائے پوریؒ نے حضرت جالندھریؒ سے اس کتاب کی اشاعت کے لئے فرمایا۔ مگر کتاب کا حصول اور طباعت کی اجازت کا مولانا حافظ محمد ابراہیم میرؒ سیالکوٹی کے ورثاء سے مرحلہ درپیش تھا۔ چونکہ میرا (سید نفیس الحسینی  ؒ) آبائی تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ اس لئے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ یہ مرحلے میں طے کروںگا۔ چنانچہ علی الصبح اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر سیالکوٹ چل نکلا۔ مولانا ابراہیم میرؒ سیالکوٹی کی نرینہ اولاد نہ تھی۔ آپ کے بھتیجے مولانا محمد عبدالقیوم میرؒ (والد ماجد پروفیسر ساجد میر) آپ کے وارث تھے۔ ان کے دروازہ پر دستک دی۔ باہرتشریف لائے۔ میں (سید نفیس الحسینیؒ) نے ان سے حضرت رائے پوریؒ کی خواہش کا اظہار کیا۔ کتاب اور اجازت اشاعت طلب کی۔ وہ الٹے پاؤں گھر گئے۔ لائبریری سے وہ کتاب اٹھالائے اور یہ وہ نسخہ تھا جس پر مصنف مرحوم (مولانا محمد ابراہیم میرؒ سیالکوٹی) نے ضروری اضافے وترامیم کی تھیں۔لیکن اس نسخہ کے سرورق پر مصنف مرحوم کا نوٹ لگا تھا۔ ’’بد لحاظ بن جاؤ لیکن کتاب کو لائبریری سے مت باہر جانے دو‘‘ یہ نوٹ پڑھ کر کتاب کے حصول کی بابت مایوسی ہوئی۔ لیکن قدرت کا کرم کہ اگلے ہی لمحہ میں میر عبدالقیومؒ نے فرمایا کہ چھپوانا مطلوب ہے اور حضرت رائے پوریؒ کا حکم ہے۔ لیجئے کتاب بھی حاضر اور چھاپنے کی بھی اجازت ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ کتاب لے کر خوشی خوشی دوپہر تک لاہور حضرت رائے پوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ حضرتؒ نے اس کارروائی پر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter