Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

95 - 142
’’حضرت سید نفیس الحسینی‘‘ برابر کے شریک رہے۔ اس سلسلہ میں آپ نے جو واقعات بیان فرمائے وہ فقیر نے نوٹ کر کے آپ کی زندگی میں شائع کر دئیے تھے۔
	چنانچہ ۲۳؍رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ بعد از تراویح کی مجلس میں آپ نے ارشاد فرمایا:
	’’حضرت رائے پوریؒ آخری عمر میں قادیانیت کے فتنہ کے خلاف مکمل متوجہ ہوگئے تھے۔ ختم نبوت کے عقیدہ کے تحفظ کے لئے ہمہ تن علماء اور متوسلین کو متوجہ فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ کوئی کمی کرتا، توجہ نہ کرتا تو خفگی فرماتے۔ خفگی بھی صرف اس کام کے لئے فرماتے تھے۔ ورنہ تو سراپا شفقت تھے۔ ایک بار گورنمنٹ کی طرف سے دسمبر۱۹۵۷ء کے آواخر جنوری۱۹۵۸ء کے آوائل میں پنجاب یونیورسٹی میں مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیاگیا۔ عرب وعجم سے سکالر اکھٹے ہوئے۔ کئی دن پروگرام رہا۔ ان دنوں حضرت رائے پوریؒ لاہور تشریف لائے ہوئے تھے۔ روزمرہ مجلس مذاکرہ کی رپورٹ سے باخبر رہتے۔ ایک دن اطلاع ملی کہ بعض عرب ممالک کے نمائندگان نے فتنہ قادیانیت کے متعلق آگاہی چاہی۔ آپ نے یہ سنا تو تڑپ گئے۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کو لکھنؤ پیغام بھجوایا کہ لاہور تشریف لائیں۔ وہ کھانسی میں مبتلا تھے۔ عذر کیا کہ تندرست ہونے پر حاضر ہوںگا۔ حضرت رائے پوریؒ نے فرمایا کہ ان سے کہو اسی حالت میں آجائیں۔ یہاں لاہور علاج کرائیںگے۔ وہ تشریف لائے تو مولانا لال حسین اخترؒ، مولانا محمد حیاتؒ مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ نے حوالہ جات مہیا کئے۔ مولانا علی میاں نے عربی میں ’’القادیانی والقادیانیہ‘‘ لکھی۔ حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے طباعت کے خرچہ کا مجلس کی طرف سے ذمہ لیا۔ پہلے بمبئی سے پھر دمشق سے شائع ہوئی۔ دنیائے عرب میں اسے تقسیم کرایا۔ عرب دنیا نے اس کتاب سے فتنہ قادیانیت کو سمجھا۔ مصر، شام، میں اس کتاب کا اتنا چرچا ہوا کہ قادیانیت پر پابندی لگی۔ پھر دوبارہ حضرت رائے پوریؒ تشریف لائے۔ حضرت مولانا علی میاں نے سفر کیا۔ پھر خود ہی مولانا علی میاں نے اردو میں اسے مرتب کیا۔ روز جتنا حصہ تیار ہوتا حضرت کو سنادیا جاتا۔ آخری خواندگی مولانا سید عطاء المنعم ابوذر بخاریؒ کے ذمہ ٹھہری۔‘‘
	’’ایک بار حضرت امیر شریعتؒ رات کو تشریف لائے۔ حضرت رائے پوریؒ آرام کے لئے خواب گاہ میں جاچکے تھے۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ آپ کو زحمت ہوگی۔ اطلاع نہ کریں۔ صبح ملیںگے۔ مگر تھوڑی دیر میں خود حضرت رائے پوریؒ نے شاہ صاحبؒ کو اپنے کمرہ میں طلب کیا۔ شاہ صاحبؒ خدام پر بگڑ گئے کہ میرے منع کرنے کے باوجود تم لوگوں نے اطلاع کیوں دی؟ خدام نے بتایا کہ ہم نے اطلاع نہیں دی۔ عضہ ٹھنڈا ہوا۔ حضرت رائے پوریؒ کے کمرہ میں گئے۔ اب پوری خانقاہ کے علماء جمع ہونا شروع ہوئے۔ کمرہ بھر گیا۔ مولانا علی میاںؒ کو بلالیا۔ کتاب کا ایک باب مولانا علی میاںؒ نے شاہ صاحبؒ کو مکمل سنایا۔ شاہ صاحبؒ سنتے رہے، سر دھنتے رہے۔ جب باب ختم ہوا تو شاہ صاحبؒ نے مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ (علی میاں) سے فرمایا کہ آپ نے اپنے ناناﷺ کا حق ادا کردیا۔ پھر خود ہی فرمایا نہیں بلکہ اپنا حق ادا کیا۔ آپﷺ کے حق کو کون ادا کر سکتا ہے؟ اس کتاب کی کتابت کی بھی سعادت مجھے بھی حاصل ہوئی۔ کتاب پر نوائے وقت نے بہت عمدہ تبصرہ کیا۔‘‘(لولاک ذیقعدہ ۱۴۲۳ھ)
	حضرت سید محمد نفیس الحسینی  ؒ نے قریباً وفات سے چار سال قبل ’’قادیانیت‘‘ کا اردو ایڈیشن اوّل جو آپ کا کتابت شدہ ہے۔ مجلس کی مرکزی لائبریری سے طلب فرمایا اور پھر اس کا عکس شائع کیا۔ اس نئے ایڈیشن پر پیش لفظ مولانا سید سلمان الحسینی الندوی مدظلہ سے لکھوایا جو یہ ہے:
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter