Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

93 - 142
	راقم روسیاہ کی آپ سے پہلی ملاقات حضرت مولانا تاج محمود صاحبؒ کے ہمراہ  ہفت روزہ چٹان لاہور کی بالائی منزل میں ہوئی۔ پہلی ملاقات میں ہی عقیدت ومحبت کے ساتھ ساتھ آپ سے قلبی انس بھی ہوگیا۔ دل آویز شخصیت، نورانی معصوم چہرہ، شامی عربوں جیسی قدوقامت کے علاوہ آپ کی مسئلہ ختم نبوت سے قلبی والہانہ لگاؤ، کتابت میں فنی مہارت، آپ کی پارسائی، غرض مسحور کن شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہا گیا۔ غالباً ۱۹۷۰ء میں دھوبی گھاٹ لائل پور (اب فیصل آباد) میں ختم نبوت کانفرنس رکھی تھی۔ اس میں مولانا محمد عبداﷲ درخواستیؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، مولانا لال حسین اخترؒ، سید مظفر علی شمسیؒ، مولانا خلیل احمد قادریؒ، صاحبزادہ مولانا افتخار الحسن شاہؒ، مولانا احسان الٰہی ظہیرؒ، سید امین گیلانیؒ اور دیگر حضرات کے بیانات ہونے تھے۔
	اس کانفرنس کے اشتہار کی کتابت کے لئے دوبارہ آپ کی خدمت میں لاہور حاضری ہوئی۔ اب زیادہ دیر آپ کی مجلس سے فیضیاب ہونے کا موقعہ ملا۔ اس کے بعد تو گویا ملاقاتوں کا دروازہ کھل گیا۔ اس دوسری حاضری کے بعد تو جب لاہور جانا ہوا آپ کی ملاقات کے لئے ضرور حاضری ہوتی۔ خدا لگتی عرض کرتا ہوں کہ ہر ملاقات میں محبت میں اضافہ ہی ہوتا گیا اور آپ کی شخصیت کے نقش دل پر منقش ہوتے گئے۔
	راقم روسیاہ کی پہلی شعوری بیعت حضرت مولانا عبدالعزیز نور اﷲ مرقدہ ساکن چک۱۱ چیچہ وطنی والوں سے ہے۔ آپ نے زندگی بھر کسی کو خلافت نہیں دی تھی۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے حلقہ کے حضرات سے معلوم ہوا کہ آپ فرماتے تھے کہ میرے بعد میرے متعلقین حضرت سید نفیس الحسینیؒ سے تعلق قائم کریں۔ چنانچہ پختہ ارادہ کر لیا کہ حضرت شاہ صاحب سے بیعت کرنی ہے۔ اس دوران میں سفر برطانیہ کا نظم طے ہوا۔ تو پہلے ڈھڈیاں شریف جاکر حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے مزار پر حاضری دی۔ حضرت مولانا صاحبزادہ عبدالجلیل دامت برکاتہم کی دعاؤں کو دامن میں سمیٹا اور لاہور جاکر صورت حال عرض کر کے بیعت کی درخواست کی۔ آپ نے توبہ کے کلمات ارشاد فرمائے۔ پڑھنے کے لئے پاس انفاس کی تلقین فرمائی اور فرمایا ’’درود شریف اور ختم نبوت کے تحفظ کے لئے بیان کرنا تمہارا وظیفہ ہے۔ میرے شیخ، شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ نے آپ (راقم) کے اساتذہ مناظر اسلام مولانا لال حسین اخترؒ اور مولانا محمد حیاتؒ فاتح قادیان کو بیعت کے وقت یہی وظیفہ ارشاد فرمایا تھا۔‘‘ ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا۔ ختم نبوت کانفرنس لندن سے واپسی پر پھر جاکر رپورٹ پیش کی تو بہت ہی خوشی وانبساط کا اظہار فرمایا۔ اس کے بعد تو الحمدﷲ بہت ہی تسلسل کے ساتھ حاضری کی سعادت نصیب ہوتی رہی۔ ماہ رمضان المبارک میں کئی بار کئی دن آخری عشرہ میں آپ کے قدموں میں گذرنے لگے۔ بیماری کے دوران بھی بارہا حاضری ہوئی۔ ہر ملاقات میں آپ کی شخصیت کا ایک ایک پہلو دلنشین ہوتا گیا۔ ہر دفعہ پہلے سے زیادہ محبت وعقیدت قائم ہوتی گئی۔ اب تو یہ حالت ہے کہ وہ کیا تشریف لے گئے دل کا سکون ہی جاتا رہا۔ آپ کی شفقتوں، محبتوں کی موسلادھار بارش اور اپنی محرومی کو دیکھتا ہوں تو دل بیٹھنے لگتا ہے۔ یہی کیفیت اس تحریر کے وقت ہے۔ ۵؍فروری کو آپ کا وصال ہوا۔ آج ۲۶؍فروری ہے بیس دن ہوگئے۔ جب بھی یاد آتی ہے۔ دل قابو میں رکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔
	قبل ازیں ہفت روزہ ختم نبوت کراچی کے مدیر مولانا عبداللطیف طاہر، کراچی مجلس کے فاضل مبلغ مولانا قاضی احسان احمد نے ہفت روزہ کے لئے مضمون کا بار بار تقاضہ کیا۔ مخدوم گرامی مولانا سعید احمد جلالپوری مدظلہ نے تاکیدی حکم فرمایا۔ لیکن ہمت نہ ہوئی۔ کئی روز مسلسل موبائل بند رکھا۔ اب بھی اکثر وقت بند رکھتا ہوں۔ زندگی میں عزیز واقارب، بزرگان ورفقاء کی وفیات کے صدمہ سے بارہا دوچار ہونا پڑا۔ لیکن حضرت شاہ صاحبؒ کی وفات نے تو دل کو گویا ویران ہی کر دیا ہے۔ دل کیا دنیا ہی بجھی بجھی لگتی ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter