Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

91 - 142
ومنتظم کے تشریف لائے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہیں سے جنازہ اٹھا اور یہاں کی مٹی نے آپ کو اپنے اندر سمو لیا۔ ۱۹۷۱ء کے بعد بھی جمعیت سے وابستہ رہے۔ لیکن حضرت مفتی صاحب مرحوم کے وصال کے بعد جمعیت کے تقسیم کے عمل سے ایسے دل گرفتہ ہوئے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف تعلیمی میدان کو اپنی سرگرمیوں کے لئے مختص کر لیا۔ لیکن سیاست منہ کی لگی ظالم چھوٹتی نہیں۔ آپ مقامی طور پر اپنے آپ کو اس سے الگ نہ رکھ سکے۔ آپ کے وجود سے ہر شخص خیر پاتا تھا۔ آخر آپ خیر محمدؒ کے شاگرد تھے۔ آپ کے تشریف لانے سے مدرسہ نعمانیہ، جامعہ نعمانیہ ہوگیا۔ تعلیم دورہ حدیث تک نعمانیہ للبنات میں جا پہنچی تو دل کی بیقراری کو قرار آگیا۔
	آپ نے قدیم مدرسہ کے ساتھ گلی کے دوسرے کنارے جامعہ نعمانیہ للبنات قائم کیا۔ اپنے بچوں کو دینی ودنیوی تعلیم سے آراستہ پیراستہ کیا۔ جامعہ نعمایہ للبنات کی خوبصورت بلڈنگ تیار کرائی۔ بنین کے درجہ کتب کو بھی توسیع دی۔ اتنی تعمیر وترقی کے باوجود خود قلندرانہ اداؤں کے خوگر رہے۔ کمالیہ میں بڑے سے بڑا افسر وسیاستدان آپ کے نام سے خم کھاتا تھا۔ آپ کے احترام میں سب کی گردنیں جھک جاتی تھیں۔ شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، سیاست، عدالت وبازار ہر حلقہ میں آپ کا احترام پایا جاتا تھا۔ آپ کے ہزاروں شاگرد ہوںگے۔ ان میں سے بعض کی تو شہرت کی بلندی آسمانوں کو چھونے لگی۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ڈاکٹر طفیل ہاشمی، مولانا قاری محمد الیاس، مولانا محمد اعظم طارق، مولانا محمد عالم طارق، دار العلوم فیصل آباد کے موجودہ مہتمم مولانا یوسف اوّل، مولانا قاری محمد ادریس، مولانا محمد احمد کمالیہ، مولانا صابر سرہندی، مولانا اکرام اختر، مولانا عبدالرشید انصاری، قاری حمید الرحمن راولپنڈی، قاری محمد نعیم فیصل آبادی، مولانا عبید الرحمن ضیائ، مولانا محمد رفیق جامی، ایسے بیسیوں حضرات شامل ہیں۔ مولانا محمد اختر کو اپنی زندگی کے آخری حصہ میں اہلیہ، بڑے بیٹے مولانا ابوبکر، ایک بہو، غرض کئی افراد خانہ کے انتقال کے صدمات سہنے پڑے۔ لیکن بہت ہی صابر وشاکر انسان تھے۔ بڑے سے بڑے صدمہ میں سراپا رضا بن جاتے تھے۔
	۲۹؍اکتوبر۲۰۰۷ء ظہر کی نماز باجماعت پڑھی۔ عصر سے تھوڑی دیر قبل قریباً ۳بجے بازار جانے کا ارادہ کیا۔ وضو کر رہے تھے کہ بلاوا آگیا۔ بازار جانے کی بجائے خانہ آخرت کو سدھار گئے۔
	اگلے دن جنازہ ہوا۔ جو اس وقت آپ کے بڑے بیٹے قاری عمر فاروق نے پڑھایا۔ خلق خدا کا ہجوم ہر طبقہ حیات کے لوگوں کا مجمع سچ کہا تھا امام احمد بن حنبلؒ نے، کہ ہمارے اور ہمارے مقابل کی سچائی کا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے۔ حق تعالیٰ ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل فرمائے۔ واقعی وہ اس کے مستحق ہیں۔ بہت ہی مدبر، زیرک، معاملہ فہم، گہری سوچ کے بیدار مغز عالم دین تھے۔ اپنے اکابر کی زندگیوں کا پرتو تھے۔ (لولاک ذیقعدہ ۱۴۲۸ھ)
(۳۵)  …  آہ! حافظ محمدحیات انگویؒ!
(وفات ۲۴؍جنوری ۲۰۰۸ئ)
	مدرسہ ختم نبوت جابہ کے مدرس وخطیب حافظ محمد حیات انگویؒ ۲۴؍جنوری۲۰۰۸ء کو انتقال فرماگئے۔ انا لللّٰہ وانا الیہ راجعون! محترم حافظ محمد حیات صاحبؒ کے والد گرامی کپتان غلام محمد صاحبؒ ساکن انگہ ضلع خوشاب تھے۔ کسی دور میں احرار سرخ پوش رضاکاروں کے جیوش کے کپتان ہوتے تھے۔ اس زمانہ میں انگہ کے محترم غلام محمد صاحبؒ انگہ کے کپتان تھے۔ آپ بہت 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter