Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

90 - 142
	ایک سال کے لئے سندھ کے ایک مدرسہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دئیے۔ ایک سال مولانا حافظ سید عطاء المنعمؒ شاہ بخاری جانشین امیر شریعتؒ کے مدرسہ میں بھی پڑھاتے رہے۔ ان دنوں جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے بانی شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد جامعہ نعمانیہ کمالیہ میں صدر مدرس تھے۔ وہ اپنے استاذ حضرت مولانا خیر محمدؒ صاحب سے مولانا محمد اختر صاحب کو جامعہ نعمانیہ کمالیہ لے گئے۔ دوسال یہاں پڑھایا۔ پھر حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ کے حکم پر مدرسہ اشرف المدارس گرونانک پورہ فیصل آباد میں تشریف لے گئے۔ یہاں سالہاسال تک تدریس کے فرائض سرانجام دئیے۔
	اس زمانہ میں جمعیت علماء اسلام کے امیر حضرت مولانا محمد عبداﷲ درخواستیؒ، ناظم عمومی مجاہد اسلام مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور روح رواں حضرت مولانا مفتی محمودؒ تھے۔ تب آپ جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوئے۔ مولانا عبدالعلیم جالندھریؒ، مولانا غلام محمدؒ، مولانا محمد اخترؒ اس زمانہ میں مدرسہ اشرف المدارس میں نمایاں شخصیات تھیں۔ مولانا غلام محمدؒ صدر مدرس تھے۔ مولانا اختر صدیقی ؒنے جمعیت علماء اسلام کے کام وپیغام کے لئے دن رات ایک کر دئیے۔ ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے شہری سیٹ پر مولانا محمد ضیاء القاسمی مرحوم کو الیکشن میں اتارنے میں آپ بھی شامل تھے۔ اس سیٹ پر الیکشن میں کامیابی تو نہ ہوئی۔ لیکن جمعیت کا پیغام گھر گھر پہنچانے میں آپ کامیاب رہے۔ اس زمانہ میں آپ کے پاس سواری کے لئے ایک موٹر سائیکل ہوتا تھا۔ تدریسی اوقات کے علاوہ باقی وقت شب وروز دور دراز دیہات، شہروں اور قصبات تک جمعیت کی آپ نے شاخیں قائم کیں۔ اس زمانہ میں جمعیت علماء اسلام کا گول چنیوٹ بازار، فیصل آباد میں دفتر ہوتا تھا۔ ان دنوں مجلس احرار کے صدر مولانا عبیداﷲ احرار اور سکرٹری جنرل مولانا حافظ سید عطاء المنعم شاہ بخاریؒ تھے۔ سیاسی ہنگامہ عروج پر تھا۔ مجلس احرار کا جلوس قائدین کی قیادت میں نکلا۔ جمعیت، احرار میں ہم مسلک ہونے کے ناطے باہمی ہمدردیاں تھیں۔ جمعیت کے دفتر کے سامنے سے احرار کا جلوس گذرا تو سیروں انہوں نے پھول کی پتیاں نچھاور کیں۔ پرجوش جلوس آٹھوں بازاروں سے گذر کر گھنٹہ گھر پہنچا تو لوگوں کے ٹھٹھ لگ گئے۔ مولانا عبید اﷲ احرار نے احراری خطابت کے رنگ میں جادو کر دیا۔ مولانا سید عطاء المنعم شاہ بخاریؒ کی دھواں دھار تقریر میں جمعیت علماء اسلام بھی تنقید کی زد میں آگئی تو مولانا محمد اختر مرحوم کی اس وقت صورتحال دیدنی تھی۔ غصہ سے لال پیلے، دوران جلسہ سکوٹر سٹارٹ کیا اور ہوا ہو گئے جمعیت کے دفتر جا دھمکے۔ آپ کو جاتے دیکھ کر جمعیت کے رفقاء کا رکن وضلعی ومقامی قیادت بھی دفتر جمع ہوگئی۔ بہت بل کھائے۔ لیکن مصلحت کی بناء پر سمٹ سمٹا کر رہ گئے۔ یہ جمعیت سے آپ کی دلی ہمدردی اور قلبی لگاؤ کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
	 آپ حضرت مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ کے تذکرہ پر آخری عمر میں آبدیدہ ہو جاتے۔ ان اکابر کا تذکرہ شروع ہوتا تو گویا دل کے ساز کی تار چھڑ جاتی۔ بس پھر ان کی گفتگو میں جو انی عود کر آتی اور تاریخ کے صفحات پے صفحات الٹنے شروع ہو جاتے۔ مولانا مفتی محمودؒ کے متعلق فرمایا کہ ایک دفعہ ان کو جھنگ سے فیصل آباد لانے کے لئے گیا۔ بس پر سفر ہوا۔ رش کے باعث گرمی کے موسم میں دونوں نے بس میں کھڑے ہوکر سفر کیا۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی قناعت کی بیسیوں روایتوں کے وہ بذات خود جہاں راوی تھے۔ وہاں عینی گواہ بھی تھے۔ مولانا محمد اخترؒ خود بھی جفاکشی میں کم نہ تھے۔ فیصل آباد سے ٹوبہ، کمالیہ، جڑانوالہ، جھنگ تک کے سفر انہوں نے سکوٹر پر کئے۔ آج بھی وہ نقشہ راقم کے سامنے ہے۔ مولانا نذیر احمدؒ صاحب کو خیر المدارس اور دار العلوم فیصل آباد تدریس کے لئے جانا پڑا تو مدرسہ نعمانیہ کمالیہ خالی ہوگیا۔ مئی۱۹۷۱ء میں آپ جامعہ نعمانیہ کمالیہ میں بطور مہتمم 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter