Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

88 - 142
المناظرین مولانا محمد حیاتؒ فاتح قادیان سے پہلی مناظرہ کلاسوں سے جو حضرات فارغ ہوئے ان میں مولانا غلام محمد علی پوریؒ بھی تھے۔ مولانا محمد امین شاہ صاحب خانیوال کے لئے مولانا غلام محمد صاحب کو حضرت امیر شریعتؒ سے مانگ کر لے گئے۔ خود فرماتے تھے کہ مولانا غلام محمد طبعاً بہت شرمیلے اور کم گو تھے۔ حضرت امیر شریعتؒ نے ازراہ شفقت مولانا سید محمد امین شاہ صاحب سے فرمایا کہ مولانا غلام محمد گونگے ہیں۔ ان کو لے جاؤ۔ شاید آپ کے کام آسکیں۔ مولانا سید محمد امین شاہ صاحب یہ بات سناتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے کہ حضرت امیر شریعتؒ کی دعاء سے مولانا غلام محمدؒ صاحب خانیوال تحصیل کے ہرقابل ذکر گاؤں اور چک میں گئے۔ جہاں جاتے کامیاب لوٹتے۔ ایسے چھائے کہ بس چھا ہی گئے۔ یہ دور تو فقیر نے نہیں دیکھا۔ البتہ حضرت امیر شریعتؒ اور حضرت خطیب پاکستانؒ کے بعد مولانا محمد علی جالندھریؒ کے عہد امارت میں ہرہفتہ مولانا سید محمد امین مخدوم پوری کا دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان تشریف لانا معمول تھا۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ نے جس دن اپنے شیڈول کے مطابق ملتان تشریف لانا ہوتا۔ اسی روز سید محمد امین شاہ صاحب ملتان موجود ہوتے۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ سے عشق وتعلق کا یہ عالم تھا تو حضرت امیر شریعتؒ سے تعلقات کا کیا عالم ہوگا۔ سید محمد امین شاہ صاحب مرحوم بہت ہی رقیق القلب تھے۔ گریہ کی حالت میں بات کرتے تو مخاطب کا کلیجہ پگھل جاتا۔ جو بات کرتے ایسے دل کی گہرائی سے کرتے کہ بس ماحول کو خدا رسیدہ بنادیتے۔ ۱۹۷۰ء کے قریب میں یحییٰ خان کے مارشلاء کا دورتھا۔ اس زمانہ میں قاسم العلوم کچہری روڈ پر تھا۔ گل گشت کی جگہ الاٹ ہو چکی تھی۔ صرف مسجد تھی مدرسہ کی تعمیر نہ ہوئی تھی۔ گل گشت قاسم العلوم ملتان میں مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔ ہزاروں کا اجتماع، حضرت جالندھریؒ، دوسرے بیسیوں خطباء مدعو تھے۔ ان میں مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ بھی تھے۔ کانفرنس کو شروع ہوئے بعد از عشاء تھوڑا سا وقت گذرا تھا کہ پولیس نے کانفرنس کے انعقاد کا اجازت نامہ کینسل ہونے کا حکم نامہ تھما دیا۔ اجتماع میں سخت اشتعال پیدا ہوا۔ حضرت جالندھریؒ نے اجتماع کو سنبھالا اور کانفرنس کی کارروائی کو بند کرادیا۔ مولانا سید محمد امین شاہ صاحب کے اس دن حسینی جلال کو فقیر نے دیکھا کہ واقعی پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ سراپا انتقام بن گئے۔ حکومت کو وہ بے نقط سنائیں کہ الامان۔ لیکن حضرت جالندھریؒ سامنے آئے تو ایسے خاموش ہوئے کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ اطاعت امیر کا جذبہ آئے کاش آج ہم جیسوں کو بھی نصیب ہو جائے۔
	مولانا سید محمد امین شاہ صاحب کے مدرسہ کے جلسہ پر ہر سال مجلس تحفظ ختم نبوت کے خورد وکلاں کی پوری جماعت تین دن کے لئے شریک ہوتی۔ انہیں جلسوں میں سے چند جلسوں کی روئیداد آج بھی ذہنوں میں تازہ اور آنکھوں میں تیرتی ہے۔ جلسہ کی صدارت مولانا سید پیر خورشید احمدؒ فرماتے تھے۔ ایک جلسہ پر سید خورشید احمد شاہؒ صاحب صدر اجلاس تھے۔ مولانا محمد اشرف ہمدانی کی دھواں دھار تقریر ہوئی۔ ان کے بعد مولانا محمد شریف بہاولپوریؒ کا بیان ہوا۔ آخری خطاب حضرت جالندھریؒ کا تھا۔ وہ منظر آج یاد آتے ہیں تو دل ودماغ منور ہو جاتے ہیں۔ مولانا سید محمد امین شاہ صاحب مخدوم پوری نے جمعیت علماء اسلام میں بھی نمایاں خدمت سرانجام دیں۔
	مولاناسید امین شاہ صاحب جناب مودودی کے مسئلہ پر خالصۃً حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے ذوق کے مظہر تھے۔ جب مولانا قاضی مظہر حسینؒ صاحب نے خدام اہل سنت والجماعت کی بنیاد رکھی تو قدر مشترک بلکہ رأس المال ان دونوں حضرات کے درمیان حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کی نسبت تھی۔ اسی نسبت اور اپنے حب اہل بیتؓ، وحب صحابہؓ کے جذبہ سے خدام اہل سنت کے لئے اپنے آپ کو لگادیا۔ قدم قدم پر ان کے ساتھ رہے۔ سو سال سے زیادہ عمر پائی۔ آخری دنوں میں کمزور ضرور ہوگئے۔ لیکن بڑھاپے اور بیماری کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter