Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

83 - 142
مالک مکان مع مرزائی مناظر کے بول اٹھا کہ جناب مکان ہمارا ہے اور نقص امن کا شدید خطرہ ہے۔ پولیس نے مجلس برخاست کرنے کو کہا۔ مولانا اﷲ وسایا کے سوال پر سب انسپکٹر پولیس نے ہنس کر کہا کہ مولانا مجھے یہی لوگ تو بلاکر لائے ہیں۔ اب آپ ان کی جان بخشی کریں۔‘‘ (مقدمہ روئیداد ۱۳۹۲ھ مجلس ص۱۸،۱۹)
	۷…	مارچ۱۹۸۹ء میں قادیانی جماعت صدسالہ جشن منانے کی تیاری کرنے لگی۔ مجلس تحفظ ختم نبوت نے امت مسلمہ کے تعاون سے آواز بلند کی۔ قادیانیوں کے جشن پر پابندی لگ گئی۔ قادیانیوں نے ہائیکورٹ لاہور میں رٹ دائر کردی۔ جسٹس خلیل الرحمن صاحب کے ہاں سماعت کے لئے منظور ہوگئی۔ مجلس تحفظ ختم نبوت نے اپنے وکیل سید ریاض الحسن گیلانی، جناب محمد اسماعیل قریشی کی خدمات حاصل کیں۔ اس زمانہ میں پنجاب کے ڈپٹی اٹارنی جناب نذیر احمد غازی تھے۔ انہوں نے مجلس سے فرمایا کہ میری تیاری کرادیں تو میں سرکاری وکیل ہوں۔ اس سے بات میں وزن ہوگا۔ مولانا کریم بخشؒ اور فقیر نے ان کے دفتر جاکر خدمت کی۔ ایک دن انہوں نے جسٹس محبوب احمد صاحب کی تقریر کا پمفلٹ دیا۔ جس میں ختم نبوت کا تذکرہ تھا۔ وہ حوالہ کورٹ میں فائدہ مند ہوسکتا تھا۔ نیز یہ کہ میاں محبوب احمد اس وقت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بھی تھے۔ غازی نذیر صاحب نے فرمایا کہ یہ پمفلٹ شائع ہونا چائیے اور کل اس کا حوالہ پیش ہو تو پورے عدالتی کمرہ میں یہ تقسیم بھی ہو جائے۔ اب صرف ایک رات درمیان میں تھی۔ مولانا کریم بخش صاحبؒ نے وہ رسالہ لیا۔ اس زمانہ میں نسبت روڈ چوک سے سرکلر روڈ پر جائیں تو ایک گلی کے کمرہ میں ایک کاتب صاحب ہوتے تھے۔ بہت ہنس مکھ، سگریٹ اور چائے کے رسیا، ہلکا بدن، خسخسی داڑھی، موڈی آدمی تھے۔ لیکن جب وعدہ کر لیتے تو نبھاتے تھے۔ ویسے مولانا کریم بخشؒ نے ان سے دوستی گانٹھ رکھی تھی۔ ان کو شام کے قریب پمفلٹ دیا کہ رات گئے کتابت ملنی چاہئے۔ میں نے آج رات شائع کرنا ہے۔ انہوں نے حامی بھرلی۔ رات کے بارہ بجے تک فقیر نے غازی صاحب کے کمرہ میں حوالہ جات کا کام مکمل کیا۔ صبح نماز کے بعد عدالت جانے سے قبل ان کی ترتیب قائم کرنے کا طے ہوا۔ مولانا نے رات بارہ بجے غازی صاحب کے دفتر سے مجھے لیا۔ اپنے دفتر چھوڑا، کتابت لائے، پروف دیکھا۔ میں تو سو گیا وہ پروف لے کر گئے۔ غلطیاں لگوائیں۔ پریس دیا۔ صبح نماز سے قبل واپس گئے۔ پمفلٹ اٹھایا۔ فولڈر کے سپرد کیا۔ نماز صبح کے بعد مجھے لیا۔ غازی صاحب کے دفتر چھوڑا، حوالہ جات کی ترتیب قائم ہوئی۔ کتب کے بکس تیار ہوئے۔ چائے کے لئے وہاں سے نکلے۔ کسی تھڑے پر مولانا کریم بخش نے ناشتہ کرایا۔ کتابیں اٹھائیں عدالت میں لائیں۔ مجھے وہاں بٹھایا خود نکل کھڑے ہوئے۔ غازی صاحب تیار ہوکر عدالت تشریف لائے۔ ماحول کو دیکھا۔ دوستوں سے ملے میرے پاس آئے اور پوچھا کہ پمفلٹ کا کیا بنا۔ میں سہم گیا کہ وہ تو ابھی نہ پہنچا تھا۔ نظر اٹھائی تو مولانا کریم بخش بنڈل تھامے سامنے سے ہال میں داخل ہوئے۔ پمفلٹ غازی صاحب نے کھولا تو نہال ہوگئے۔ غرض یہ مولانا کریم بخش صاحب کی ایک رات کی محنت کی رپورٹ ہے۔
	۸…	۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان کے مرکزی دفتر لاہور کے انچارج مولانا کریم بخش تھے۔ آپ نے میٹنگ پر میٹنگ بلانے، لاہور میں مرکزی قیادت، مولانا عبدالستار خان نیازیؒ، مولانا عبدالقادر روپڑیؒ، مولانا علی غضنفر کراروی، حضرت مولانا قاری محمد اجمل خانؒ، مولانا علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ، جناب چوہدری غلام جیلانیؒ وغیرہم کے ساتھ جس طرح رابطہ رکھا اور تحریک کے بانکپن کو مدہم نہ ہونے دیا۔ امیر مرکزیہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم، مولانا مفتی مختار احمد نعیمیؒ، مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کی ہر مرکزی میٹنگ پر لاہور تشریف آوری سے فائدہ اٹھا کر لاہور میں کانفرنس 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter