Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

81 - 142
	صاحبزادہ حافظ محمد عابد مرحوم نے حضرت میاں جان محمد صاحبؒ باگڑ سرگانہ والے جو حضرت ثانیؒکے خلیفہ تھے۔ ان کی لائبریری بمع دو عدد لکڑی کی بڑی سائز کی عمدہ الماریاں دیار کی لکڑی کی عمدہ نقش سے بنی ہوئیں میاں صاحب مرحوم کے صاحبزادہ میاں خان محمد صاحب کو کہہ کر ملتان بھجوائیں۔ تفسیر، حدیث، سیرت، تاریخ کی کتابیں ملتان مجلس کی لائبریری میں درج ہوئیں۔ درسی کتب حضرت مولانا فیض احمدشیخ الحدیث کے مدرسہ امدادیہ کو دے دی گئیں۔ دونوں الماریوں کا سپرٹ پالش کرایا۔ پہلے ماہنامہ لولاک کے لئے زیر استعمال رہیں۔ پھر ان کو ملتان سے چناب نگر بھجوایا گیا۔ آج کل وہ کورس وکانفرنس کے موقعہ پر قابل فروخت کتب مکتبہ کے لئے زیر استعمال ہیں۔ چناب نگر بخاری لائبریری جو کمرہ نمبر۲ میں ہے۔ اس کی تمام بقیہ الماریاں سرگودھا سے حضرت مولانا عزیز الرحمن جالندھری نے حضرت مولانا محمد اکرم طوفانی کے ذریعہ بنوا کر بھجوائیں۔ فقیر جس وقت چناب نگر گیا۔ اس وقت لائبریری میں ایک کتاب نہ تھی۔ یوں اکٹھا کرا کے کتابیں آنا شروع ہوئیں۔ اس وقت پانچ ہزار کے لگ بھگ کتب ہیں۔ صرف ایک بار پانچ سات ہزار کی کتابیں خرید کیں۔ باقی سب ادھر ادھر سے جمع ہوئیں۔
	۳…	فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ جہاں جاتے ان کی کتب کے بکس ان کے ہمراہ ہوتے۔ وہ آخری سفر میں چناب نگر سے لاہور گئے تو وہ کتب ان کے ہمراہ تھیں۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے ورثاء سے معاملہ طے کر کے ان کتب کو لاہور دفتر میں حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ لائے۔ مولانا کریم بخش صاحبؒ نے ان کو چناب نگر بھجوایا۔ اس کے دو زنگ آلود بکسے خستہ حالت میں قاری شبیر احمد کے زیر استعمال تھے۔ اگر انہوں نے ضائع نہیں کئے واپس کردیں تو رنگ کراکر لائبریری میں رکھ دیں۔ ہماری ان سے یادیں وابستہ ہیں۔ اب کمرہ نمبر۲ میں لائبریری کی تمام الماریاں فل ہیں۔ کتب کے ڈھیر لگے ہیں۔ مزید الماریاں اس لالچ میں نہیں بنوا رہے کہ یہ کمرہ بھی لائبریری کے لئے ناکافی ہے۔ مدرسہ کے سامنے پلاٹ جو خریدے ہیں اس میں لائبریری ہال بننا چاہئے تو کتب کو وہاں منتقل کیا جائے۔ یہ ہماری زندگی میں نہ ہو تو جب بھی ہو۔ لیکن جو رفقاء ہوں وہ لائبریری سیٹ کرتے وقت ’’گلستان میں جب بہار آئے تو ہمیں یاد رکھنا‘‘
	۴…	ایک قادیانی کتاب ’’تذکرۃ المہدی‘‘ اس میں ایک غلیظ حوالہ ہے۔ یہ ایک کتاب صرف حضرت خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمدؒ کے پاس تھی۔ وہ سٹیج پر خود حوالہ نہ پڑھتے، یہ حوالہ کسی نوجوان سے پڑھاتے تو مجمع میں قادیانی اخلاق باختگی سن کر سراسمیگی پھیل جاتی۔ قاضی صاحب اندرون سندھ سے ٹرین پر سفر کر رہے تھے۔ کتب کا بکس آہنی زنجیر سے سیٹ کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ کسی بدبخت نے وہ زنجیر کاٹ کر چرالیا۔ اس میں یہ کتاب بھی تھی۔ فقیر نے واقعہ سن رکھا تھا۔ کتاب کا نام معلوم نہ تھا۔ حضرت مولانا عبدالرحیم اشعرؒ سے اس کا نام پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ حوالہ ہے۔ وہ لکھنے کا … نہیں۔ چناب نگر قیام کے دوران میں ایک مسلمان پروفیسر کے قادیانی شاگرد سے قادیانیوں کی خلافت لائبریری سے وہ کتاب ایشو کرائی۔ پروفیسر صاحب نے وہ کتاب لاکر دی۔ تین دن کا وقت تھا کتاب واپسی کے لئے۔ وہ کتاب لی اور فقیر لاہور جا دھمکا۔ کتاب کھول کر تین سیٹ فوٹو تیار کرائے۔ چناب نگر، ملتان، محترم باوا صاحب کو کراچی وہ فوٹو بھجوائے۔ کتاب دوبارہ اسی طرح جلد کرائی کہ باہر کی چٹ اور اندر کا کاغذ سب کچھ وہی۔ پروفیسر صاحب کو بھی اس وقت نہ بتایا کہ میں نے اس کتاب سے یہ واردات کی ہے۔ جب ان کے قادیانی شاگرد کے ذریعہ قادیانی لائبریری میں اصل کتاب واپس جمع ہوگئی تب پروفیسر صاحب کو بتایا۔ اس وقت تو وہ حیران ہوگئے۔ لیکن نقصان یہ ہوا کہ پھر کسی بھی کتاب کے منگوانے کے لئے کنی کترانے لگے۔ یہ پروفیسر حافظ محمد یوسف تھے۔ جو آج بھی زندہ سلامت ہیں۔ اﷲتعالیٰ انہیں سلامت رکھے۔ پھر بعد میں کہیں سے مولانا منظور الحسینیؒ بھی اصل کتاب ڈھونڈ لائے۔ پھر ایک 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter