Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

79 - 142
کی مرض ہے۔ قطار میں چلنے کی بجائے علیحدہ راستہ اختیار کرتا ہے یا خود ستائی وخود فریبی میں مبتلا ہے۔ اسے ہمیشہ باتوں باتوں میں رسمی طور پر علیک سلیک کے بعد فارغ کردیتے۔ کبھی نہ ان سے ملنے جاتے اور اگر وہ ملنے آگیا تو نہ اس کے لئے کوئی اہتمام کرتے۔ غرض ٹرخانوے لگاتے اور جو جوہر قابل دیکھا تو اس کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کرتے۔
	مولانا مرحوم بنیادی طور پر زمیندار تھے اور طبیعت میں غریب پروری تھی۔ باوفا انسان تھے۔ مشرقی پاکستان سے ایک ساتھی چوہدری محمد ہاشم پاکستان آئے ہوئے تھے کہ ڈھاکہ فال ہوگیا وہ یہیں رہ گئے۔ ان کا یہاں کوئی عزیز، نہ ٹھکانہ تھا۔ نہ ہی پڑھنے پڑھانے کے آدمی تھے۔ سیلانی طبیعت تھی۔ جرنیلی ڈنڈا ہاتھ میں ہوتا۔ آج یہاں، کل وہاں۔ جمعیت علمائے اسلام کے بنیادی نظریاتی کارکن تھے۔ جب لاہور آتے تو مولانا کریم بخش صاحبؒ کے ہاں ان کا ڈیرہ ہوتا اور مہینوں وہ مولانا کے ہاں رہتے۔ مولانا جو روکھی سوکھی کھاتے اسے بھی شریک رکھتے۔ نام کریم بخش تھا تو مزاجاً بھی کریم النفس تھے۔
	اسی طرح ایک ساتھی عبدالغفور حقانی جو اوچ شریف کی اعوان فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ بلا کے ورکر، انتھک اور محنتی، نظریاتی کارکن۔ وہ مولانا مرحوم کے ہاں رہنے لگے اور سالوں مولانا مرحوم کے ساتھ رہے۔ مولانا کی کریم النفسی کہ ایک دن بھی معاملہ توتکار تک نہیں گیا۔ یہ حقانی صاحب بعد میں علامہ ممتاز اعوان ہوئے۔ ختم نبوت یوتھ فورس، شبان ختم نبوت اور آج کل پاسبان ختم نبوت کے مرکزی رہنماء ہیں۔ حق تعالیٰ بہت ہی برکتوں سے نوازیں۔
	اسی طرح ایک ساتھی اچھے ورکر جناب حافظ محمد اکبر صاحب جتوئی کے تھے۔ وہ اخبار جنگ لاہور میں ملازم ہوئے۔ پھر ملتان، انہوں نے بھی محبان یا عاشقان مصطفیؐ کے نام سے ایک انجمن قائم کی اور یوں نعت خوانی کے ذریعہ وہ خدمت خلق کرتے رہتے تھے۔ یہ بھی عرصہ تک حضرت مولانا کریم بخش صاحبؒ کے ساتھ دفتر میں مقیم رہے۔ اوپر جن حضرات کا تذکرہ ہوا یہ سب مولانا کریم بخش صاحبؒ کے اخلاص وتقویٰ ودیانت وشرافت کے قائل اور بھرپور مداح ہیں۔ اس حیثیت سے ان کی گواہی بہت وزنی حیثیت رکھتی ہے کہ یہ سب مولانا مرحوم کے شب وروز کے ساتھی تھے۔
	علاقائی حیثیت سے جناب نوابزادہ نصر اﷲ خان، جناب سردار منظور احمد خان گوپانگ اور دوسرے رہنماؤں سے ان کے بہت اچھے تعلقات تھے اور ان تعلقات سے وہ اپنے غریب ساتھیوں کے کام آتے تھے۔ مولانا کریم بخش صاحبؒ اور فقیر چند سالوں کے فرق سے مجلس میں شامل ہوئے۔ فقیر سے ان کا جماعتی تعلق، ذاتی تعلق میں بدل گیا۔ فقیر لائل پور رہا یا چناب نگر۔ زیادہ کام لاہور سے متعلق ہوتے تو مولانا مرحوم سے ہفتہ، عشرہ، پندرہ دن حد مہینہ میں ایک آدھ ملاقات لازمی ہوتی تھی۔
	۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کی کامیابی کے نتیجہ میں چناب نگر (ربوہ) کو کھلا شہر قرار دیا گیا۔ مجلس کے مدارس ومساجد قائم ہونی شروع ہوئیں۔ تو ان کا لائل پور اور چناب نگر آنا یا فقیر کا لاہور جانا رہتا تو یہ جماعتی دوستی، ذاتی محبت میں بدل گئی۔ ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں مجلس کا دفتر لاہور، آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا مرکزی دفتر بنا۔ اس تمام تحریکی زمانہ میں مولانا کریم بخش صاحبؒ نے جان جوکھوں میں ڈال کر بھرپور محنت کی۔ چند واقعات جو اس وقت بھی ذہن کی ڈسک میں محفوظ ہیں۔ وہ عرض کرتا ہوں:
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter