Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

75 - 142
لگا۔ بھٹوصاحب کے عہدکے اقتدار میں جامعہ عباسیہ کو ختم کرکے جامعہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا نام دیا گیا تو ان تمام مدارس کو مڈل اور ہائی سکول قراردیا گیا۔ اب دینی تعلیم کی جگہ مکمل تعلیم سکولوں اور کالجوں کی ہے۔ نام اسلامیہ یونیورسٹی ہے۔ لیکن نصاب باقی یونیورسٹیوںجیسا ہے۔ بہاول ریاست کے نیک دل حکمرانوں کی دینی تعلیم سے متعلق تمام جدوجہد کو خاک میں ملادیا گیا اور انگریزی تعلیم کے اونٹ نے ان مدارس کے خیموں میں مکمل جگہ پر قبضہ کرکے دینی تعلیم کو خیمہ بدر کردیا۔
	مولانا مفتی غلام قادرصاحبؒ خیرالعلوم ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ سکول مکمل طور پر قومی تحویل میں لیا گیا۔ آپ مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائرڈ ہوئے تو خیرالعلوم مدرسہ میں خالص درس نظامی کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی۔ اب مدرسہ عربیہ خیرالعلوم خیرپور ٹامیوالی جامعہ خیرالعلوم ہے۔ اس میں دورہ حدیث شریف کی تعلیم ہوتی ہے۔ مولانا مفتی غلام قادر صاحبؒ اس کے بانی سے شیخ الحدیث کے درجہ تک فائز رہے۔ آپ کے تمام رفقاء کو توفقیر نہیں جانتا۔ لیکن مولانا غلام سرور مرحوم، مولانا علامہ سید نذر محمد شاہ صاحب ایسے حضرات سکول ومدرسہ میں آپ کے دست وبازو تھے اور غالباً یہ سب حضرات یا تو آپ کے ساتھی تھے یا شاگرد۔ غرض اپنی ٹیم بنائی اور بڑی کامیابی کے ساتھ اسے تعلیم کے میدان میں اتارا اور بڑی کامیابی سے فتوحات پر فتوحات حاصل کیں۔
	مولانا مفتی غلام قادر صاحب مرحوم کی دیانتداری دیکھئے کہ خیرپور کی معروف دینی برادری جو علمائ، فضلاء پر مشتمل تھی۔ یعنی سادات ہمدانیہ ان کو نہ صرف اپنے ساتھ رکھا۔ بلکہ ہمیشہ ان کو اہتمام پر سرفراز رکھا۔ یوں ان کے تعاون وسرپرستی سے آگے بڑھتے چلے گئے اور کارواں کو منزل بمنزل کامیابی سے آگے بڑھاتے گئے۔ 
	مولانا غلام قادرصاحبؒ پختہ رائے رکھتے تھے۔ منتظم مزاج تھے۔ دینی ودنیاوی علوم کو جانتے پہچانتے تھے۔ بڑے سے بڑا سیاستدان اس علاقہ میں سیاسی کامیابی کے لئے مفتی صاحب کے دروازہ کا پانی بھرنے کو اپنے اوپر فرض سمجھتا۔ جسے مناسب سمجھا اس کے ساتھ تعاون کا وعدہ کرلیا۔ جس کے ساتھ ہوگئے۔ وہ کامیاب ہوگیا۔ اس کی کامیابی مفتی صاحب کے تعاون کی مرحون منت ہوتی تو مفتی صاحب دینی اور دنیاوی معاملات میں غریب رفقاء کے لئے ان کو کلمہ خیر کہتے رہتے۔ جس کی سفارش جس سے کر دی کبھی رائیگاں نہ جاتی۔ یوں مفتی صاحب کی ذات گرامی اس علاقہ کے غریب عوام کے لئے سایہ رحمت تھی۔ مجھے ذاتی طور پر خود مفتی صاحب کی شخصیت کے احترام کی بلندیوں پر جھانکنے کا موقعہ ملا۔
	نواز شریف صاحب کے دور اقتدار میں علاقہ کے زمیندار نے میری دو گائے چوری کرالیں۔ ان دنوں بہاول پور کے معروف سیاستدان تسنیم نواز گردیزی وفاقی وزیر تھے۔ ان کا ایک عزیز رسہ گیر زمیندار کا حمایتی تھا۔ میری کوئی پیش نہ جانے دیتا۔ زمیندار نے اسے شیشہ میں اتارا ہوا تھا۔ میں جس آفیسر کو مل کر آتا اگلے دن وہ ملتا۔ تسنیم نواز کا نام استعمال کرتا اور پیش رفت کو بریک لگ جاتی۔ مجھے بھنک پڑی کہ مولانا مفتی غلام قادر صاحب کے تسنیم نواز سے مراسم ہیں۔ خیر پورگیا۔ مفتی صاحب نے تسنیم نواز کو فون کیا۔ وہ بہاول پور گھر آئے ہوئے تھے۔ اگلے دن ملاقات کا وقت طے ہوا۔
	 مفتی صاحب بہاول پور تشریف لائے۔ مجھے ساتھ لیا اور تسنیم نواز صاحب گردیزی کے گھر گئے۔ اس کا میٹنگ ہال علاقہ بھر کے زمینداروں سے اٹا ہوا تھا۔ تسنیم نواز صاحب نے مفتی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter