Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

74 - 142
رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ حضرت مولانا خیرمحمدصاحبؒ کو اہتمام کا مجدد کہا جاتا ہے۔ حضرت مولانا غلام قادرؒ بھی اہتمام وانتظام کے ماہر تھے۔ مولانا خیرمحمد صاحبؒ متبحر عالم دین اور خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ مولانا غلام قادرؒ بھی ایسے ہی تھے۔ مولانا خیر محمدصاحبؒ نے جامعہ خیرالمدارس کی بنیاد رکھی اور اسے بام عروج ملا۔ مولانا مفتی غلام قادرؒ نے جامعہ خیرالعلوم کی بنیاد رکھی اور عروج کی بلندیوں پر لے گئے اور تو چھوڑئیے مولانا غلام قادرؒ ،قد کاٹھ، وضع قطع، چال ڈھال میں بھی اپنے استاذ محترم کی ٹوکاپی تھے۔
	مفتی غلام قادر صاحبؒ نے جس زمانہ میں دورہ حدیث شریف کیا اس زمانہ میں ریاست بہاول پور (جس میں بہاول پور، بہاول نگر، رحیم یارخان کے اضلاع شامل تھے) میں جامعہ عباسیہ کے نام پر یونیورسٹی قائم تھی۔ اس یونیورسٹی کے تحت میں ان تینوں اضلاع میں مدارس تھے۔ جنہیں رفیق العلمائ، فاضل، کہا جاتا تھا۔ رفیق العلماء کو آپ ہائی سکول اور فاضل کو آپ انٹر کالج سمجھ سکتے ہیں۔ اس زمانہ میں جامعہ عباسیہ اور اس کے ماتحت مدارس عربیہ کے نصاب میں دینی ودنیاوی علوم شامل تھے۔ علماء اور ٹیچر، مدرسین کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ مفتی غلام قادر صاحبؒ نے خیرالعلوم کے نام پر مدرسہ قائم کیا۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی شاہراہوں پر تیز رفتاری کی دھوم مچادی۔ خیرالعلوم کو ہائی سکول تک لے گئے اور اسے جامعہ عباسیہ کے ساتھ ملحق کرلیا۔ نصاب جامعہ عباسیہ کا پڑھایا جاتا۔ پنجاب یونیورسٹی میں مولوی عالم اور مولوی فاضل کی ڈگری ملتی تھی تو جامعہ عباسیہ کی ڈگری کو ثالثہ عالم اور ثالثہ فاضل کی ڈگری کہا جاتا تھا۔ ثالثہ فاضل پاس کرنے کے بعد طالب علم جامعہ عباسیہ میں داخل ہوتا اور دورہ حدیث شریف تک کی تعلیم حاصل کرتا تو آخری علامہ کی ڈگری ملتی تھی جو ایم اے کے برابر ہوتی تھی۔ آپ دن بھر جامعہ عباسیہ کا نصاب پڑھاتے۔ لیکن غریب طلباء کے لئے آپ نے خیرالعلوم کے تحت ہوسٹل کا فری انتظام کیا۔ ان طلباء کو سکول کے امتحان کے دنوں کے علاوہ رات کو بقیہ درس نظامی کی کتب جو جامعہ عباسیہ کے نصاب میں شامل نہ تھیں پڑھائی جاتیں۔ غرض دینی ودنیاوی تعلیم، نصاب عباسی ودرس نظامی کا آپ نے حسین امتزاج قائم کردیا اور اسے بڑی خوبی کے ساتھ چلایا۔
	 مدرسہ عثمانیہ پیلی راجن میں مولانا سید محمدعلیؒ شاہ صاحب، سعیدپور نہٹروالی میں مولانا سید سعید الحسن کے والد صاحب مولانا سید عبدالکریم شاہ صاحب جنہیں ’’حضرت صاحب‘‘ کہا جاتا تھا نے بھی اور دیگر حضرات نے بھی ایسا سلسلہ نصاب قائم کیا اور غریب طلباء کے لئے فری ہوسٹل کا انتظام بھی کیا ہوا تھا اور پوری ریاست میں ایسے مدارس کا جال بچھا ہوا تھا۔ لیکن دیانتداری کی بات ہے کہ سب سے زیادہ عروج وشہرت جس ادارہ کو نصیب ہوئی اور جو آج تک بھی قائم ہے۔ وہ مولانا مفتی غلام قادرصاحبؒ کا قائم کردہ ادارہ خیرالعلوم ہے۔ تب اس زمانہ میں جامعہ عباسیہ کے تحت چلنے والے مدارس عربیہ میں دارالعلوم دیوبند کے فضلاء اور جامعہ عباسیہ کے فضلاء (علامہ) زیادہ تر مدرس ہوتے تھے۔
	ویسے ریاست بہاول پور میں ان مدارس میں مدرس کے لئے دارالعلوم دیوبند، جامعہ امینیہ دہلی، علی گڑھ کالج، مظاہرالعلوم سہارنپور، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے فضلاء کو سرکاری ملازمت ملتی تھی اور ان جامعات کے فارغ التحصیل حضرات کے لئے ’’فضلاء خمسہ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ یعنی متذکرہ پانچ مدارس وجامعات میں سے کسی کا فارغ التحصیل ہو تو سرکاری ملازمت کا ریاست بہاول پور میں اسے اہل سمجھا جاتا تھا۔
	ون یونٹ کے اختتام تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ون یونٹ کے بعد جامعہ عباسیہ اور اس کے ماتحت مدارس عربیہ میںیہ نصاب رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ دینی تعلیم کی جگہ دنیاوی تعلیم کا غلبہ ہونے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter