Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

73 - 142
	طبعاً مرنجاں مرنج تھے۔ کسی بھی ادارہ وجماعت میں رہے ہوں اپنے کسی بھی دوسرے فریق کا شکوہ وغیبت نہ کرتے تھے۔ نہ ہی مخالفت مول لیتے تھے۔ اس لئے کہیں بھی رہے احترام تمام طبقوں میں آپ کا کیا جاتا تھا۔
	مدرسہ سلطان العلوم کوٹلہ رحم علی شاہ میں دورہ تفسیر کا آغاز ہوا۔ آپ کو تکلیف دی گئی۔ آپ نے تفسیر پڑھائی اور ایسی پڑھائی کہ گویا آپ کا موضوع ہی یہ تھا۔ آپ نے سنی خطباء کے لئے جمعہ خطبہ عربی زبان میں ترتیب دیا، شائع ہوا۔ ملک کی کئی مساجد میں وہ پڑھا جارہا ہے جو آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔ مسجد مہاجرین، جامعہ محمدیہ فیض القرآن جام پور میں نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط آپ نے قرآن وسنت سے لوگوں کے ایمانوں کو جلاء بخشی۔ گذشتہ سے پیوستہ برس اس مدرسہ کے جلسہ پر فقیر کی حاضری ہوئی۔ رات کا بیان تھا۔ مدرسہ سے گھر دور ہونے کے باوجود رات کو تشریف لائے اور فرمایا صرف آپ سے ملنے کے لئے آیا ہوں۔ بیان کے آخر تک شریک مجلس رہے۔ اس سے ان کی برخوردار نوازی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اپنے مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک کی جماعتوں وشخصیات کے ہاں بھی آپ کو احترام کا درجہ حاصل تھا۔ مقامی، ضلعی، ڈویژنل امن کمیٹیوں کے رکن رکین رہے۔ جسم ہلکا، رنگ پکا، داڑھی قدرے ورلی چھڑے بالوں والی، قدوقامت دراز، عمر بھر چاک وچوبند رہے۔۹۵سال کی عمر پائی آخر وقت تک کسی کے محتاج نہ ہوئے۔ سوائے بڑھاپا کی کمزوری کے کوئی بیماری نہ تھی۔ اخباری اطلاع کے مطابق آخری دن بھی حسب معمول صبح درس قرآن مجید دے رہے تھے کہ دل کی بازی ہار گئے۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائیں۔ اس روز جام پور میں جنازہ ہوا جو آپ کے صاحبزادہ مولانا ابوبکر عبداﷲ نے پڑھایا۔ شام کو آبائی قبرستان کوٹ چھٹہ میں آسودہ خاک ہوئے۔ حق تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائیں۔ دیانتداری کی بات ہے کہ بہت ہی خوبیوں کے مالک عالم دین تھے۔ اسلاف کی روایات کی چلتی پھرتی تصویر قانع طبیعت اور ایثار پیشہ تھے۔ باوجودیکہ ایک پسماندہ قصبہ نما شہر میں زندگی گزاری۔ لیکن احترام، مقام، شہرت، ملک گیران کو نصیب ہوئی۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ پڑھنے پڑھانے اور تقریر وبیان سے تعلق رکھا۔ اگر تحریر کی دنیا کی طرف طبیعت چل نکلتی تو لکھنؤ کی زبان دانی کے باعث قابل قدر ذخیرہ چھوڑ جاتے۔ اب بھی سینکڑوں ان کے شاگردان کے لئے ذخیرہ آخرت ہیں۔ سراپا خیر تھے۔ حق تعالیٰ ان کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق نصیب ہو۔ آمین! بحرمۃ النبی الکریم! (لولاک رجب المرجب ۱۴۲۸ھ)
(۲۹)  …  آہ!حضرت مولانامفتی غلام قادرؒ
(وفات ۴؍جولائی ۲۰۰۷ئ)
	۲۹؍جولائی ۲۰۰۷ء کو برمنگھم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی ۲۲ویں سالانہ ختم نبوت یورپ کی تیاریوں کے لئے ان دنوں فقیر، یو،کے، کے سفر پر ہے۔ جامعہ باب العلوم کہروڑپکا میں زیر تعلیم عزیزی القدر حافظ محمدانس نے لندن میں فون کے ذریعہ افسوس ناک یہ اطلاعی دی کہ ۴؍جولائی ۲۰۰۷ء کو حضرت مولانا مفتی غلام قادر صاحبؒ وصال فرماگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون! حضرت مولانا مفتی قادرؒ جامعہ خیرالعلوم خیرپور ٹامیوالی ضلع بہاول پور کے بانی، شیخ الحدیث ، مفتی، متبحرعالم دین، نامور مذہبی شخصیت اور وفاق المدارس پاکستان کے ممتاز رہنما تھے۔
	۲۵جولائی۱۹۲۰ء کو خیرپورٹامیوالی میں پیدا ہوئے۔ دارالعلوم دیوبند سے دورہ حدیث شریف کیا۔مفتی صاحب اس وقت اسی نوے کے پیٹے میں ہوں گے۔ آپ جامعہ خیرالمدارس ملتان کے ابتدائی فضلا میں سے تھے۔ حضرت مولانا خیرمحمدجالندھریؒ کے آپ ممتاز شاگرد تھے اور اپنے استاذ کے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter