Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

70 - 142
	مولانا قاری محمد اختر صاحب نے حضرت مولانا عبداللطیف جہلمی مرحوم کے مدرسہ حنفیہ جہلم میں تعلیم حاصل کی۔ حضرت مولانا غلام یحییٰ جامع المعقول والمنقول سے تمام کتب پڑھیں۔ حضرت مولانا عبداللطیف جہلمی نور اﷲ مرقدہ آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے اور آپ کی تربیت کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ آپ نے جامعہ مدنیہ لاہور میں دورۂ حدیث کے لئے آپ کو داخل کرایا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا حامد میاں مرحوم سے ۷۰،۱۹۷۱ء میں دورۂ حدیث شریف مکمل کیا۔
	۱۹۷۱ء میں ہی حضرت مولانا عبداللطیف صاحب جہلمی کے حکم پر مسجد شیخاں پنجن کسانہ ریلوے لائن اور جی ٹی روڈ کی درمیانی آبادی میں امامت، خطابت، تعلیم وتعلم، درس وتدریس کا آغاز کیا۔ یہ دور آپ کی بھرپور جوانی اور محنت ومشقت، ایثار وقربانی کی لازوال جدوجہد کا آئینہ دار ہے۔ مل گیا تو کھالیا نہ ملا تو پورا دن فاقہ میں گزار دیا۔ پنجن کسانہ سے جادہ تک کئی کلومیٹر کا سفر ہے۔ نماز پنجن میں، کھانا جادہ میں، یوں وقت گزارا۔
	فقیر راقم کا اس دور میں آپ سے تعلق قائم ہوا۔ ان دنوں گوجرانوالہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ حضرت مولانا عبدالرؤف جتوئی مرحوم ہوتے تھے۔ تب آپ نے گجرات کے قادیانیت زدہ دیہاتوں اور چکوک کا دورہ رکھا۔ حضرت مولانا قاری محمد اخترؒ ہمارے میرکارواں تھے۔ پیدل، سائیکل، تانگہ کے ذریعہ یہ سفر ہوئے۔ اس زمانہ میں قادیانی جارحیت زوروں پر تھی۔ قریہ، قریہ قادیانی طلسم کو توڑنا جان جوکھوں کا کام تھا۔
	قاری محمد اختر مرحوم نے فراغت کے بعد بیعت شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عبداﷲ درخواستیؒ سے کی اور پھر یہ تعلق عشق میں تبدیل ہوگیا۔ ان دنوں گجرات ضلع میں جمعیت علماء اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کی پہچان حضرت مولانا قاری محمد اختر مرحوم تھے۔ قاری محمد اختر خود ایک واقعہ سناتے تھے کہ اس زمانہ میں ایک بار کھاریاں کے قریب کسی چک سے مسلمان ماسٹر نے ملتان دفتر ختم نبوت خط لکھا کہ قادیانیوں نے اودھم مچارکھا ہے۔ مسلمان کمزور ہیں۔ مسئلہ کی وضاحت کے لئے کسی فاضل مبلغ ختم نبوت کو بھیجا جائے۔ دفتر مرکزیہ سے مولانا قاضی محمد اﷲ یار خان مرحوم کی ڈیوٹی لگی۔ بھاری بھرکم کتب کا بکس لیا۔ پنجن کسانہ سے قاری محمد اختر کے ہاں دوپہر کو جادھمکے۔ اچانک ان کو دیکھ کر قاری صاحب فرماتے تھے۔ مجھے تعجب ہوا۔ قاضی اﷲ یار مرحوم نے پوری کہانی سنائی۔ جمعرات کا روز تھا۔ خط آمدہ دکھایا۔ عصر کے قریب قاری محمد اختر اور قاضی محمد اﷲ یار روانہ ہوئے۔ کتب کا بکس قاری محمد اختر نے، بیگ قاضی صاحب نے اٹھایا۔ مغرب کو وہاں جاپہنچے۔ ایک آدمی مسجد میں ملا۔ اس سے خط ارسال کرنے والے کا نام پوچھا۔ وہ صورتحال کو بھانپ گیا۔ اس نے کہا کہ وہ کاتب خط تو پنڈی گیا ہوا ہے۔ یہ کہہ کر یہ آدمی چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد دوسرے حضرات سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے جن سے آپ نے پوچھا وہی کاتب ومرسل مکتوب تھے۔ وہ اب آپ کو نہیں ملیںگے۔ خط تو آپ کو لکھ دیا لیکن وہ اب صورتحال کی ذمہ داری قطعاً قبول نہ کریںگے۔
	قاری محمد اخترؒ فرماتے تھے یہ سن کر ہم دونوں کو تعجب ہوا اور صورتحال کی سنگینی کا بھی احساس ہوا۔ میں تو مایوس ہوگیا کہ یہاں وعظ وتبلیغ ممکن نہیں۔ واپس جانا ہوگا۔ لیکن اگلے لمحہ قاضی صاحب نے فیصلہ سنایا کہ قاری صاحب آپ واپس جائیں میں رات یہاں رہوںگا۔ جمعہ بھی یہاں پڑھوںگا۔ آپ اطمینان رکھیں۔ کل جمعہ کے بعد شام کو آپ کے ہاں آجاؤںگا۔ قاضی صاحب نے عشاء پر نمازیوں کے سامنے صورتحال رکھی۔ دس منٹ بیان کیا۔ کسی نے کھانا دے دیا۔ رات مسجد میں گزاری، صبح درس دیا تو مزید فضائل وبرکات اور مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت پر بیان کیا۔ جمعہ پر خاصی حاضری ہوگئی تو قادیانیوں کے لتے لئے۔ قادیانی کفر کو عوام پر واشگاف کیا۔ پورے گاؤں کے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter