Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

69 - 142
کتابی شکل میں چھاپنے کا بیڑہ اٹھایا۔ یوں نت نئے مسائل سے متعلق اسلامیان برصغیر کی فقہی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ گذشتہ دو سالوں سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس برمنگھم میں شریک ہوتے تھے۔ ان کی وفات موت العالم موت العالم کا مصداق ہے۔ موصوف کو منجھے ہوئے عالم دین ہونے کے ناطے جمعیت علماء اسلام کی فقہی مجلس کا سربراہ مقرر کیاگیا۔ حق تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ (لولاک صفر ۱۴۲۸ھ)
(۲۶)  …  حضرت مولانا قاری محمد اختر  ؒ کا وصال!
(وفات ۱۷؍مئی ۲۰۰۷ئ)
	۱۷؍مئی ۲۰۰۷ء بروز جمعرات کو دن بارہ بجے کے قریب پنجن کسانہ تحصیل کھاریاں ضلع گجرات سے مولانا شبیر احمد مبلغ مدرسہ حنفیہ کا فون آیا کہ مولانا قاری محمد اختر صاحب کو دل کی تکلیف ہوئی اور اچانک انتقال کر گئے۔ انا لللّٰہ وانا الیہ راجعون!
	یہ خبر اتنی اچانک اور افسوسناک تھی کہ دم بخود ہوگیا۔ ۱۷؍مئی کی شام احمد پورسیال میں ختم نبوت کانفرنس تھی۔ ۱۸؍مئی کا خطبہ جمعہ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی مرحوم کی جامع مسجد چنیوٹ میں طے تھا۔ ان کاموں سے فرصت ملتے ہی ۱۹؍مئی بروز ہفتہ ظہر کے قریب پنجن کسانہ میں حاضر ہوا۔ حضرت مولانا محمد اختر کی مسجد، مدرسہ، طلباء طالبات، اساتذہ، مسند، منبر ومحراب، مہمان خانہ سب کچھ موجود تھے۔ کاروان تھا، لیکن میر کاروان نہ تھے۔ ہر طرف اداسی، ہو کا عالم، درودیوار گریہ زار، پژمردہ اور دل گرفتہ سے سوگوار ماحول میں مغموم چند منٹ بیٹھا، معلوم ہوا کہ قاری محمد اختر مرحوم کے تینوں صاحبزادہ صاحبان مدرسہ للبنات، جادہ جہلم میں ہیں۔ وہاں کے لئے عازم سفر ہوا۔
	بڑے صاحبزادہ حافظ وقاری ہیں۔ جادہ مدرسہ کو چلاتے ہیں۔ منجھلے صاحبزادہ دورۂ حدیث شریف پڑھ رہے ہیں۔ سب سے چھوٹے صاحبزادہ درجہ رابعہ تبلیغی مرکز گجرات کے طالب علم ہیں۔ تینوں حضرات سے ملاقات ہوئی۔
	تعزیت عرض کی۔ معلوم ہوا کہ ۱۷؍مئی کو قاری صاحب ساڑھے دس بجے اپنے معمولات سے فارغ ہوئے۔ اس روز مدرسہ للبنات میں چند بچیوں کے حفظ قرآن کی تقریب تھی۔ ان بچیوں کا آخری سبق سنا۔ ختم قرآن کی دیر تک دل سوز دعاء کرائی۔ مدرسہ کی بچیوں نے ششماہی امتحان کے بعد گھر جانا تھا۔ ان کو ہدایات دیں۔ واپس تشریف لائے تو مسجد میں نوافل ادا کئے۔ کہیں سفر کے لئے جانا چاہتے تھے۔ لیکن نوافل سے فارغ ہوکر اپنی مسند پر تشریف لائے۔ چائے کی خواہش کا اظہار کیا۔ خود چار پائی پر دراز ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد چائے آگئی۔ وہ نوش کی۔ پھر لیٹ گئے۔ اتنے میں دل پر ہاتھ رکھا۔ قبلہ رخ ہوئے۔ آنکھیں بند کیں اور جان، جان آفرین کے سپرد کر دی۔ اس وقت تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ہوںگے۔ سب کچھ اس تیزی میں ہوا کہ کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلا کہ کیا ہوگیا ہے؟ ساتھیوں نے اٹھایا، ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ انہوں نے نبض دیکھی اور تصدیق کر دی کہ دل کی بے قراری کو قرار آگیا ہے۔ انا لللّٰہ وانا الیہ راجعون!
	اس روز عصر کے قریب پنجن کسانہ مولانا عزیز الرحمن ہزاروی کی امامت میں کثیر تعداد میں خلق خدا نے جنازہ پڑھا، ساڑھے چھ بجے شام جادہ جہلم میں آپ کے منجھلے صاحبزادہ نے نماز جنازہ کی امامت فرمائی اور مغرب کے قریب جادہ کے آبائی قبرستان میں آسودہ خاک ہوگئے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter