Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

62 - 142
مولانا عبدالرحمنؒ فاضل دیوبند‘ مولانا مفتی زینؒ العابدین فاضل ڈابھیل‘ مولانا محمد ضیاء ؒالقاسمی‘ مولانا صاحبزادہ فضل رسول‘ مولانا صاحبزادہ افتخار الحسنؒ‘ مولانا محمد اسماعیل گوجروی‘ مولانا عبیدااللہؒ احرار ایسے بیسیوں علماء ‘ فضلائ‘ خطباء سے فیصل آباد کے درو دیوار روشن تھے ۔ اس وقت ملک میں حضرت امیر شریعت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ ‘ خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی ؒ‘ مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر ؒ ‘ مولانا عبدالرحمن میانویؒ‘ مولانا سیّد عطاء المنعم بخاریؒ‘ مولانا محمد شریف جالندھریؒ‘ مولانا محمد شریف بہاولپوریؒ‘  مولانا صاحبزادہ فیض الحسنؒ‘ آغا شورش کاشمیریؒ‘ مولانا عبید اللہ ؒانور‘ مولانا سیّد مظفر علی شمسیؒ‘ علامہ احسانؒ الٰہی ظہیر‘ مولانا عبدالقادر روپڑیؒ‘ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ‘ مولانا شمس الحق ؒافغانی‘ مولانا عبدالستار خان نیازیؒ‘ مولانا گل بادشاہؒ‘ مولانا غلام غوث ہزارویؒ‘‘ مولانا حکیم عبدالسلام ہزارویؒ‘ مولانا سیّد نورالحسن بخاریؒ‘ مولانا مفتی محموؒد‘ مولانا دوست محمد قریشیؒ‘ نوابزادہ نصر اللہ خانؒ‘ فاتح قادیان مولانا محمد حیاتؒ ایسے سینکڑوں علماء کرام کے علم و فضل کے چرچوں سے پاکستان گونج رہا تھا‘ ان سب حضرات سے مولانا تاج محمود صاحب ؒکے نہ صرف برادرانہ تعلقات تھے بلکہ یہ سب حضرات جب چنیوٹ کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس پر تشریف لاتے تو آتے جاتے مولانا تاج محمود صاحبؒ کے ہاں ننھا طارق محمود ان کی زیارت سے مستفیض ہوتا اور ان کی میزبانی کی خدمات میں شریک ہوتا اور ان کی شفقتوں سے اپنے آپ کو مالا مال کرتا‘ حضرت امیر شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ایک بار فیصل آباد مولانا تاج محمودؒ کے ہاں تشریف لائے تو طارق محمود چند اوزار لے کر کسی چیز کے بنانے میں معصومانہ ادائوں کے ساتھ منہمک تھا‘ شاہ جی نے دیکھا تو فرمایا کہ تاج محمودؒ میرا یہ بیٹا انجینئر ہے‘ پھر جب بھی حضرت شاہ جی مولانا کو خط لکھتے تو ’’میرے بیٹے انجینئر کو پیار‘‘ کے الفاظ ضرور لکھتے‘ اس ماحول میں صاحبزادہ طارق محمود صاحبؒ نے بچپن گزارا۔
	۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں صاحبزادہ صاحب ابھی بچپن کی زندگی گزار رہے تھے‘ مولانا تاج محمود صاحبؒ کی گرفتاری کے لئے پولیس نے چھاپا مارا تو یہ معصوم صاحبزادہ اپنی والدہ اور بہنوں کا واحد نگہبان تھا۔ حضرت مولانا تاج محمود صاحبؒ نے اردو‘ فارسی کالج کی بنیاد رکھی اور بنات الاسلام اسکول انجمن نصرت الاسلام کے تحت قائم کیا تو ان تمام سرگرمیوں میںا پنی عمر کے اعتبار سے صاحبزادہ صاحبؒ سب کے نشیب و فراز سے واقف تھے۔ البتہ تمام اکابر علماء سے شناسائی اور ان سے برخوردارانہ تعلقات کے باوجود تبلیغی و جماعتی سرگرمیوں میں عملاً شریک نہ تھے‘ سوائے اس کے کہ چنیوٹ کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس اور شہر کے جلسوں میں رفقاء اور دوستوں کے گروپ کے ساتھ سامع کی حیثیت سے شرکت کرتے اور بس۔
	۱۹۸۴ء میں اپنے والد گرامی کی وفات کے تعزیتی جلسہ میں آپ نے پہلا عوامی خطاب کیا‘ اور بڑی گھن گرج اور اعتماد کے ساتھ ایسا پُر اثر بیان کیا کہ مولانا مرحوم کی وفات کے صدمہ سے نڈھال دوستوں کے بھی حوصلے بلند کردیئے‘ خطاب کے بعد حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے آپ کے کندھوں کو تھپکایا اور دونوں ہاتھوں سے صاحبزادہ صاحبؒ کے چہرہ کو گرفت میں لے کر شفقت کا ہاتھ پھیرا‘ اس دن سے صاحبزادہ صاحبؒ نے داڑھی رکھ لی اور اپنی تمام تر توانائیاں‘ مسجد‘ محراب و منبر‘ ہفت روزہ لولاک اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے لئے وقف کردیں۔ پیپلز کالونی کی ایک مسجد میں جمعہ کے خطبہ کے لئے کمر باندھی اور تین چار ماہ میںد ینی موضوعات پر خطاب کے لئے اتنی بھرپور تیاری کرلی کہ دوست و دشمن کو حیران کردیا‘ اپنے کاروبار کو سمیٹا‘ والد مرحوم کے قائم کردہ بنات الاسلام کی باقاعدہ نگرانی اور اہتمام کو سنبھالا‘ ان دنوں ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت زوروں پر تھی‘ ملک کے بعض 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter