Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

58 - 142
یہاں چھوڑا جاسکتا ہے لیکن کتابوں کو تو ساتھ لے جانے کا اپنا ہی لطف ہے۔ اس لئے ان کو ابھی میری گاڑی میں رکھوادیں۔ اس سے آپ کے قلم وکتاب سے عشق کو سمجھا جاسکتا ہے۔
	کل پاکستان جمعیت علمائے اسلام نے پشاور میں دارالعلوم دیوبند کانفرنس کا اہتمام کیا۔ دیوبند سے بھاری بھرکم وفد نے اس میں شرکت کی۔ دارالعلوم کی اتنی بڑی قیادت کی اسلامیان پاکستان نے زیارت کی۔ موقعہ زیارت مہیا کرنے کا سامان حضرت مولانا فضل الرحمن نے کرکے ہموطنوں پر احسان کیا۔ حضرت مولانا سیداسعدمدنی  ؒبھی تشریف لائے۔ آخری روز آخری سے پہلا بیان آپ کا تھا۔ جو وقت اختتامی دعا کے لئے طے تھا وہ قریب ہوگیا۔ آپ کا اعلان کیا گیا۔ آپ نے ایمان پرور انداز میں خطبہ مسنونہ پڑھا۔ لاکھوں سامعین پر وجدآفریں کیفیت طاری ہوگئی۔ خطاب چند جملوں میں مکمل کیا۔ وقت کی تنگی کا عذر کرکے بیٹھ گئے۔ حاضرین زیارت ومختصر بیان سے تو ضرور مستفید ہوئے۔ لیکن تشنگی دور نہ ہوئی۔ بایں ہمہ لاکھوں کے سامنے بیان کرنے کی بجائے وقت کی پابندی کا وہ نمونہ قائم فرمایا کہ سبحان اﷲ!
	اپنے محبوب رہنما کی حکایت لذیذ کی طوالت کی معافی کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ افغانستان‘ برما‘ آسام‘ مالدیپ‘ نیپال‘ عرب امارات‘ سعودیہ‘ امریکا‘ افریقہ‘ کینیڈا‘ یورپ‘ فجی آئی لینڈ‘ انڈونیشیا‘ غرض پوری دنیا کے مسلمانوں کے آپ قابل احترام رہنما تھے۔ ہرجگہ ابنائے دارالعلوم دیگر رہنمائوں کی طرح آپ کا دلی احترام کرتے تھے۔ آپ بھارت کے رہائشی تھے۔ ہر ملک کے ساتھ دوسرے ملک کی پالیسی یکساں نہیں ہوتی۔ اس لئے جہاں کہیں تشریف لے گئے اس ملک کے سیاسی مسائل پر ایک لفظ تک نہیں کہتے تھے۔ پاکستان اور بھارت کو لے لیں۔ دونوں ممالک کی کسی زمانہ اور کسی حدتک اب بھی پالیسی مختلف ہے۔ جو امر پاکستانیوں کے لئے اہم ہے، انڈیا کے لئے وہ غیر اہم ہے۔ دونوں ملکوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ کشمیر کے مسئلہ کو لے لیں۔ دونوں ممالک کی اپنی اپنی پالیسی ہے۔ اگر کوئی بات پاکستان میں یہاں کے مسلمانوں کی ترجیحات کو سامنے رکھ کر فرماتے تو آپ کے پہنچنے سے قبل بھارت میں ہندومسلم فسادات شروع ہوجاتا۔ وہاں کی ترجیحات کے مطابق یہاں بات فرماتے تو جانے سے قبل پاکستان میں طوفان قائم ہوجاتا۔ اس ایک مثال سے پوری دنیا کے مسلمانوں کی ترجیحات کو سامنے رکھیں تو آپ کی بالغ نظری کی داد دینی پڑتی ہے کہ بیرون بھارت کہیں بھی کسی سیاسی مسئلہ کو ٹچ نہ کرتے۔ صرف ہر ملک کے مسلمانوں کی دینی رہنمائی فرماتے اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون بھارت قطعاً اخبارات کے نمائندوں سے ملاقات نہ کرتے۔ تاکہ اخباری صنعت کو بات کا بتنگڑ بنانے کا موقعہ ہی نہ مل سکے۔ کوئی نمائندہ آہی گیا تو علیک سلیک کے بعد نپے تلے چند جملوں کے تبادلہ کے بعد اسے فارغ فرمادیتے۔
	 لیکن ہمارے خطہ کا اپنا مزاج ہے۔ یہاں ایک جہادی رہنما کو دارالعلوم دیوبند کانفرنس پشاور میں اس کی خواہش کے مطابق پروٹوکول نہ ملنا تھا نہ مل سکا۔ خیر سے اس قبیلہ کی اکثریت ایجنسیوں کی مرہون منت ہے۔ اس بونے رہنما نے اخباری صنعت کے ایک ایسے موقعہ کے متلاشی قلمکار کو گانٹھا۔ آپ کے خلاف مضمون چھپ گیا جو حقائق کاقتل عام اور خلاف واقعہ الزامات کا طور مار تھا۔ آپ نے اس کے جواب میں ایک لفظ نہیں فرمایا۔ صبر حضرت ایوب علیہ السلام کی سنت پر عمل کیا۔ لیکن آپ کے صبر کا اس خودساختہ جہادی رہنما پر بعد میں یہ اثر ہوا کہ خود اپنی سرزمین پر سراٹھاکر چلنے کا حالات نے نہ رہنے دیا۔ اب تک ’’کس نمے پرسد ازمن کہ بھیا کون ہو‘‘ کا مصداق ہے۔ من عادلی ولیاً فقد اذنتہ بالحرب! کی زندہ عملی تصویر اسلامیان وطن کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter