Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

46 - 142
	حضرت مولانا عبداللطیف صاحب جہلمی ایک ممتاز عالم دین اور مجاہد فی سبیل اﷲ تھے۔ ان کا وجود قدرت کا عطیہ تھا۔ ان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی۔ وہ اپنے مؤقف کے پکے اور ارادے کے مضبوط تھے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے خلیفہ مجاز، تحریک خدام اہل سنت پنجاب کے امیر اور جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے بانی تھے۔ اﷲ رب العزت نے آپ کی ذات گرامی کو خوبیوں کا مجموعہ بنایا تھا۔ وہ اس دور پر فتن میں روشن ستارہ تھے۔ جمعیت علماء اسلام کی ابتدائی آبیاری کرنے والے اکابر حق میں سے تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے تھے اس پر سختی سے کاربند ہو جاتے تھے۔ جو مؤقف سوچ سمجھ کر اختیار کیا اس میں معمولی سی لچک کے روادار بھی نہ تھے۔ بامقصد کامیاب زندگی گزاری۔ اس پر بجا طور پر خوش بخت انسان تھے۔ شیعیت، مودودی جماعت اور حیات النبیﷺ کے منکرین سے کسی بھی رعایت کے روادار نہ تھے۔ ان کے نظریات پر خوشنما مدلل، دیانتدارانہ تنقید کرتے تھے۔ انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ مؤقف اختیار کیا اور پھر زندگی بھر اس کو وظیفہ حیات بنالیا۔ اس میں وہ کامیاب وکامران ہوئے۔
	جہلم وچکوال کے اطراف میں شیعہ جارحیت کے توڑ کے لئے اپنے رفقاء کو منظم کیا اور بغیر کسی تصادم وجانی نقصان کے اپنے فریق مخالف کو جارحانہ سوچ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ان کی فراست ایمانی، مومنانہ سوچ اور قائدانہ صلاحیت کی دلیل ہے کہ زیادہ نقصان کئے کرائے بغیر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ تمام دینی تحریکوں کے دل سے قدردان تھے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے بانی راہنماؤں، امیر شریعت حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، خطیب پاکستان قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھریؒ، مناظر اسلام مولانا لال حسین اخترؒ، فاتح قادیان مولانا محمد حیاتؒ، شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ اور حضرت قبلہ مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم سے مثالی تعلقات تھے۔ دفتر مرکزیہ کو ہمیشہ اپنی ہدایات سے نوازتے رہتے تھے۔ ان کے نیک مشورے ہمارے لئے مشعل راہ ہوتے تھے۔ جامعہ حنفیہ کی ابتداء سے اس وقت تک ہمیشہ ان کے سالانہ جلسہ میں مجلس کی نمائندگی ضرور ہوتی تھی۔ اندرون وبیرون ملک ان کے مریدین ومتعلقین کی بہت بڑی تعداد ہے۔
	عموماً ہر سال برطانیہ تشریف لے جاتے۔ اس موقعہ پر اگر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی برطانیہ میں سالانہ کانفرنس ہوتی تو اپنے رفقاء سمیت بھرپور شرکت فرماتے۔ کسی مقرر کی گفتگو میں کوئی اونچ نیچ ہوتی تو اس کی علیحدگی میں اصلاح فرماتے۔ خود فقیر راقم الحروف کو آخری ملاقات میں بھدر ضلع گجرات کے سالانہ جلسہ میں علیحدگی میں پندونصائح سے نوازا۔ یہ ان کی برخوردار نوازی تھی۔ ورنہ اس دور میں تنقید تو آسان ہے۔ مگر کسی کی اصلاح پر کون توجہ دیتا ہے۔ وفات سے پہلے حضرت مولانا نے جامعہ کا سالانہ جلسے کا اہتمام کیا۔ ہفتہ اتوار کو کامیاب ترین جلسہ ہوا۔ ملک بھر سے جماعتی کارکن اور حضرت مرحوم کے متعلقین جمع ہوئے۔ تمام انتظامات آپ کی نگرانی میں بہتر طور پر انجام پائے۔ دوسرے دن تھکے ہوئے دل نے بازی ہاردی اور اگلے سفر پر روانہ ہوگئے۔ ان کی وفات کی خبر سن کر پورے ملک سے علماء ومشائخ کا جم غفیر جمع ہوگیا۔ اگلے دن پیر طریقت حضرت مولانا قاضی مظہر حسین دامت برکاتہم امیر تحریک خدام اہل سنت پاکستان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور اپنے دست راست کو حوالہ رحمت خداوندی کیا۔
	حضرت مرحوم کے دو صاحبزادے حافظ وقاری اور عالم ومجاہد ہیں۔ مولانا قاری خبیب احمد اور قاری صہیب احمد۔ اﷲتعالیٰ ان کو والد گرامی کا جانشین بنائے۔ خدا کرے یہ اپنے والد کے جلائے ہوئے دیپ کی لو کو کم نہ ہونے دیں۔ بلکہ اسے اتنا روشن کریں کہ وہ مینارہ نور بن جائے۔ وما ذالک علیٰ اﷲ بعزیز!
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter