Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

44 - 142
عرض کیا۔ رکھ رکھاؤ والے آدمی ہیں۔ مان گئے ہیں۔ لیکن آپ اجازت دیں تو بیان ابھی کرادوں؟ ڈر لگتا ہے کہ آپ کے کاز کو نقصان نہ ہو۔ آنکھیں بند کئے کان میرے منہ سے لگائے سنتے رہے۔ آخری جملہ پر فرمایا کہ ختم نبوت پر سب مصلحتیں قربان۔ کرائیں بیان، لیجئے مولانا کی اتنی بات سے فقیر سیر سے شیر ہوگیا۔ انگڑائی کے بہانے دونوں ہاتھ فضاء میں بلند کئے واپس کرتے ہوئے جو خطیب تقریر کر رہے تھے۔ ہاتھ ان کے پاؤں کو لگا کر بریک کا کام لے لیا۔ ان کی تقریر ختم ہوئی۔ جھٹ سے کراروی صاحب کا اعلان یوں کیا۔ ’’حضرات کافی رات بیت چکی۔ ہمارے معزز مہمان اور آپ کے دلوں کی دھڑکن مجاہد اسلام مولانا حق نواز صاحب مدظلہ، لیکن ان سے پہلے تشریف لاتے ہیں خطیب اہل بیت جناب علی غضنفر کراروی۔‘‘ اب نعرے مولانا حق نواز صاحب کے اور تقریر شروع ہوگئی جناب کراروی صاحب کی۔ وہ بھی بلا کے خطیب چند منٹوں میں چھاگئے۔
	آخری خطاب مولانا حق نواز صاحب کا ہوااور یہ اس کانفرنس پر ان کا آخری خطاب تھا۔ اگلے سال وہ کانفرنس سے پہلے وہاں چلے گئے۔ جہاں ہم سب نے جانا ہے۔ دعاء حضرت خواجہ صاحب مدظلہ نے کرائی۔ کانفرنس کے اختتام پر صبح ہونے پر صرف دو گھنٹے باقی تھے۔ مولانا دن بھر کے تھکے ماندے۔ رات ساری بیٹھ کر آنکھوں میں کاٹ دی تھی۔ حضرت خواجہ صاحب دامت برکاتہم سٹیج سے اترے۔ رہائش گاہ کی طرف تشریف لائے۔ مولانا حق نواز سٹیج سے اترے۔ میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا حضرت خواجہ صاحب مدظلہ سے ملنا ہے۔ دس پندرہ منٹ حضرت کی خدمت میں بیٹھے رہے۔ پھر اجازت لی۔ فقیر کا خیال تھا رات ایک بجے سٹیج پر آئے ہیں کھانا کھا کر آئے ہوںگے۔ سواری ساتھ ہے۔ ابھی واپسی ہو جائے گی۔ نہ کھانے کا فکر نہ رہائش کا کھٹکا۔ لیکن حضرت کے کمرے سے باہر نکلتے ہی مجھے آہستہ سے کہا کہ کھانا کھانا ہے۔ اب کھانا کھلانے والے سارے ساتھی سو چکے۔ کمرے مہمانوں سے اٹے ہوئے۔ لیکن اعصاب پر کنٹرول کر کے فقیر نے عرض کیا سب انتظام ہے، تشریف لائیں۔ مدرسہ کے برآمدے میں گئے۔ قالین پر سوئے ہوئے ساتھیوں کو ادھر ادھر کیا۔ قالین سیدھا کیا اور مولانا سے کہا تشریف رکھیں۔ فقیر اب سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا باورچی خانہ کی طرف۔ وہاں نہ بندہ نہ بندہ کی ذات۔ ڈونگہ ہاتھ میں لیا دوچار خالی دیگوں کے ڈھکنے اٹھائے کسی میں سالن کا بچا ہوا چورا مل گیا۔ ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارے تو کچھ روٹیاں بھی مل گئیں۔ سر سے رومال اتارا روٹیاں لپیٹیں۔ بغیر چمچ، پلیٹ کے اکیلا ڈونگا ہاتھ میں روٹیاں بغل میں تیر کی طرح مولانا کے پاس جاپہنچا۔ روٹیوں والا رومال سیدھا کر کے دسترخوان بنایا۔ ڈونگا رکھا۔ مولانا سے عرض کی۔ بسم اﷲ کریں۔ میں پانی لاتا ہوں۔ پانی لایا۔ مولانا اور ان کے نعت خواں فلک شیر کمال رغبت کے ساتھ سرجھکائے کھانا کھانے میں مصروف۔ میں نے پانی کا جگ رکھا۔ ایک روٹی اٹھائی اور ساتھ ہی جٹ گیا۔ چند منٹ میں تینوں کھانے سے فارغ۔ اب برتن اٹھانے کو تھا کہ مولانا نے فرمایا کہ آرام بھی کرنا ہے۔ ایک گھنٹہ صبح ہونے میں باقی ہے۔ اس وقت جانا خطرے سے خالی نہیں۔ چنیوٹ جاکر کسی کو اٹھانا مناسب نہیں۔ یہیں کہیں کمر سیدھی کرتا ہوں۔ گھنٹے تک آذانیں ہوجائیںگی۔ اپنی نماز پڑھ کر سفر کرلوںگا۔ میں نے سینہ تان کے کہا بہت اچھا۔ اسی قالین کے سرے کو تھوڑا سا گول کیا، سر کا رومال جس سے پہلے دسترخواں کا کام لے چکا تھا اب بسترے کی چادر کے طور پر بچھادیا۔ میری کمال مہمان نوازی اور ان کی عظمت کہ ٹوپی سر سے اتاری ایک ہاتھ کا سرہانہ بنایا۔ ٹوپی بغل میں لی اور دراز ہوگئے۔ 
	فقیر نے باورچی خانہ میں جاکر برتن رکھے۔ تقاضہ سے فارغ ہوا۔ مین گیٹ بند کیا۔ نیند کہاں آنی تھی۔ ہزاروں مہمان لیٹے ہوئے اور اتنا بڑا مہمان کھلے بندوں لیٹا ہوا۔ مجھے نیند کہاں آنا تھی۔ واپس آیا تو مولانا گہری نیند سوچکے تھے اور فلک شیر کے خراٹے ماحول کو موسیقی سنا رہے تھے۔ بیٹھنا میرے لئے مشکل، تھوڑی جگہ مولانا کے قدموں میں بچی ہوئی تھی۔ میں نے وہاں سر ٹکا 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter