Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

40 - 142
گزرگیا۔ لیکن تلخی شہر بھر میں رہی۔ اس دور میں ملک بھر میں دیوبندی بریلوی مسئلہ کا خوب رن پڑا ہوا تھا۔ اس بہتی  گنگا میں مولانا بھی اشنان کئے بغیر نہ رہ سکے۔
	دنیا اس وقت گلوبل کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ عالمی اثرات سے ہر ایک ملک متاثر ہوتا ہے۔ پھر ہمسایہ ملک کی گرمی، سردی، بارش، آندھی کے اثرات تو فوری محسوس ہوتے ہیں۔ لیجئے صاحب عراق ایران جنگ شروع ہوگئی۔ خمینی صاحب کے انقلاب کے اثرات نے پاکستان میں ان کے ہم عقیدہ لوگوں کو شعلہ جوالا بنادیا۔ ہر جگہ وہ اپنی ڈھب کی چھاپ لگانے کے درپے ہوئے۔ تب سعودی عرب اور امریکہ، عراق کے ساتھ اور ایران کے خلاف تھے۔ عراق گورنمنٹ کو ایرانی انقلاب کے راستے میں سد سکندری گردانا جارہا تھا۔ پاکستان میں جنرل محمدضیاء الحق صاحب کی حکومت تھی۔ پاکستان میں شیعہ سنی تنازعہ نے بھی شدت کا انداز اختیار کرلیا۔ اس سے قبل جنرل یحییٰ کے دور حکومت میں جھنگ میں باب عمرؓ کے حادثہ پر حالات نے نیا رخ اختیار کرلیا تھا۔ باب عمرؓ کے شہداء کے جنازہ میں مجاہد ملت حضرت مولانا محمدعلی جالندھریؒ کی غلامی میں فقیر کو بھی شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ پھر جھنگ شہر لال مسجد میں خطبہ جمعہ کے بعد عظمت صحابہؓ کے عنوان پر ایک ماہ جیل میں قید کی نعمت بھی ملی۔ (قارئین ساتھ ساتھ میرے فضائل کا پائو پارہ بھی سنتے جائیں۔)
	اس دور میں جھنگ کی قیادت مولانا غلام قادر، مولانا ولی اﷲ، مولانا مفتی غلام حسین، مولانا سید صادق حسین شاہ، مولانا مفتی عبدالحلیم، مولانا محمد اسد اﷲ قاسمی، مولانا محمدفاروق، حکیم مولانا محمدیاسین، مولانا سید غلام مصطفی شاہ کے ہاتھوں میں تھی۔ مؤخر الذکر دو حضرات کے علاوہ سب اﷲ تعالیٰ کو پیارے ہوچکے۔ اﷲ تعالیٰ سب پر اپنی رحمت نازل فرمائیں اور جو زندہ ہیں اﷲ تعالیٰ انہیں سلامتی دارین نصیب فرمائیں۔ آگے چل کر اس قیادت میں نئے نوجوان عالم دین مولانا حق نوازؒ بھی شریک قافلہ ہوئے اور بہت جلد قدرت نے انہیں قافلہ سالار بنادیا۔
	مولانا حق نواز شہیدؒ بلا کے خطیب تھے۔ بلکہ خدا لگتی یہ ہے کہ وہ اپنے انداز خطابت کے موجد تھے۔ اب تو ان کے اخلاص کا صدقہ، ہمارا ہر نوجوان ان کے انداز کو اپناتا ہے۔ اس سے قبل خطباء کے کھیپ میں سریلی اور مترنم آواز میں بیان کرنے کا انداز غالب تھا۔ اب بھی ترنم والے خطیب ہیں۔ لیکن معدوے چند۔ لیکن جو ہیں ان کی چاندی ہے کہ یہ انداز خطابت اب کمیاب ہے۔ کسی دور میں ارزاں تھا، اب گراں ہے۔
	مولانا حق نواز صاحبؒ کی گفتگو میں معلومات ودلائل کی فراوانی، الفاظ کا سیلاب اور جذبات کا سمندر رواں ہوتا تھا۔ وہ ہر موضوع پر تیاری کر کے آتے تھے اور دلائل وجذبات کے ساتھ موجزن ہوتے تھے وہ اپنی مربوط گفتگو اور مسلسل خطاب میں الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا کرتے۔ بلکہ ان سے کھیلا کرتے تھے۔ جس موضوع پر اظہار کرتے۔ بے تکان کرتے، جس دریا کو عبور کرتے۔ انتہاء کے کنارہ پر پہنچ کر جس کشتی میں دریا عبور کر کے آئے ہوتے۔ سب سے پہلے اسے جلا دیا کرتے تھے۔ تاکہ واپسی کا شائبہ تک نہ رہے۔ اس لئے جس موضوع پر گفتگو کرتے وہ حرف آخر کا درجہ رکھتی تھی۔ اس کی مثال میں سعید چتروڑ گڑھی اپریشن کی تقریر کو سامنے رکھا جاسکتا ہے۔
	مولانا بنیادی طور پر جمعیت علماء اسلام سے وابستہ تھے۔ جمعیت کے پنجاب الیکشن میں حصہ لیا۔مولانا سید امیر حسین گیلانیؒ پنجاب کے امیر منتخب ہوگئے۔ خطابت اور مقبولیت کی انتہاء پر مولانا مرحوم جلوہ گر تھے۔ نوجوان رفقاء کارکن آپ کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے۔ لیکن 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter