Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

38 - 142
فہمی ہے کہ میں ’’خاکہ‘‘ لکھتا ہوں۔ خاکہ لکھنے کا ایک تقاضہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مرحوم پر جو لکھا جائے اس میں ان کی زندگی سے متعلق تمام گوشوں کا سرسری طور پر احاطہ ہوجائے۔ تاکہ کل کو ان پر کوئی کتاب لکھنا چاہیں تو یہ مضمون اشاریہ یا متن کا کام دے۔ اس کے ساتھ ایک عادت اچھی یا بری یہ بھی ہے کہ تعزیتی مضمون لکھتے ہوئے سنی سنائی باتوں کو جمع کرنے کی بجائے جو ذاتی مشاہدات ہیں وہ قلمبند کرتا ہوں۔ خراج تحسین پیش کرنا اور خاکہ لکھنا دونوں میں بہت فرق ہے۔
	مرحوم شخصیت کے متعلقین وکارکن، فقیر کے تعزیتی مضامین میں خراج تحسین تلاش کرتے ہیں۔ مضمون میں جب یہ چیز انہیں غالب نظر نہیں آتی، تو انہیں مایوسی ہوتی ہے اور پھر ان مضامین پر جو بے رحم تبصرے ہوتے ہیں اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ گھر بیٹھے بٹھائے مفت میں ان کی نیکیوں سے بہرہ مند ہوجاتا ہوں۔ مولانا ضیاء القاسمیؒ مولانا حق نوازؒ مولاناایثارالحق قاسمیؒ مولانامحمداعظم طارقؒ اور مولانا ضیاء الرحمن فاروقی پر فقیر نے کچھ نہیں لکھا۔ اس کا باعث یہ کہ ماہنامہ لولاک ملتان کے چیف ایڈیٹر مخدوم زادہ طارق محمودؒ ہوتے تھے۔ وہ جس شخصیت پر مضمون لکھ دیتے تھے وہ حرف آخر ہوتا تھا۔ مجلس کی نمائندگی ہوجاتی تو فقیر چپ سادھ لیتا۔ وہ نامور صاحب قلم تھے۔ ان کے مضامین جاندار ہوتے تھے۔ اس کے بعد ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی تھی۔ ہاں اگر انہوں نے کسی شخصیت پر کچھ نہیں لکھا ہوتا تو فقیر قلم پکڑ لیتا اور کچھ نہ کچھ گھسیٹ دیتا۔ ان تمام متذکرہ افراد پر ماہنامہ لولاک کے لئے صاحبزادہ مرحوم کے مضامین آگئے تو فقیر نے کچھ نہ لکھا۔ فقیر کے تعزیتی مضامین پر مشتمل کتاب ’’فراق یاراں‘‘ چھپی تو بہت سارے انجان دوستوں کے تیور بگڑے۔ حالانکہ صحیح صورت حال وہی ہے جوعرض کردی۔
	گزشتہ دو دنوں سے برادرم حضرت مولانا محمداسماعیل صاحب شجاع آبادی میرے سر ہیں کہ محترم جناب ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں کا فون آیا ہے۔ وہ حضرت مولانا حق نواز شہیدؒ پر کوئی نمبر لانا چاہتے ہیں۔ ان کا حکم ہے کہ آپ بھی کچھ لکھیں۔ عرض کی کہ فقیر تو حسب عادت ’’مشاہدات یا خاکہ‘‘ لکھنے کا خوگر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے رفقاء خراج تحسین کے تلاش کندگان۔ تو نبھے گی نہیں۔ نیا پھڈا نہ کھڑا ہوجائے۔ مولانا نے فرمایا کہ ضرور لکھیں۔ مرحوم کا حق ہے۔ مولانا شجاع آبادی کے اصرار کے باوجود ان سے وعدہ کیا نہ ارادہ بنا۔ لیکن ان کے جاتے جاتے مولانا حق نواز مرحوم کی محبت ایسی غالب آئی کہ یکدم طبیعت میں اٹھان اور اڑان کی کیفیت نے قلم پکڑنے پر مجبور کردیا۔ لیجئے! بسم اﷲ کرتا ہوں:
	مولانا حق نواز مرحوم سپرا (جٹ برادری) سے تعلق رکھتے تھے۔ جنہیں عرف عام میں ’’مہر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ضلع جھنگ علاقہ چنڈ، تھانہ مسن موضع چیلہ میں بوہڑوالا کھوہ ان کی جائے پیدائش ہے۔ مولانا کے والدگرامی زمیندارہ کرتے تھے۔ ان کا نام مہرعلی محمد تھا۔ ان میں اﷲ تعالیٰ نے ’’کھوجی‘‘ کی وصف رکھی تھی۔ اس سے وہ خدمت خلق کا کام لیتے تھے۔ مولانا حق نوازؒ کے ماموں حافظ جان محمدصاحب تھے۔ مولانا نے ان سے قرآن مجید اپنے کھوہ بوہڑ والا میں حفظ کیا۔ مولانا پیر مبارک شاہ بغدادیؒ جھنگ کے مرنجان مرنج پیر تھے۔ انہوں نے جھنگ، ملتان کے اضلاع میں قرآن مجید کے کئی مدارس قائم کررکھے تھے۔ مولانا حق نوازؒ نے عبدالحکیم میں پیر مبارک شاہؒ کے مدرسہ میں گردان مکمل کی۔ ابتداء سے مشکوٰۃ شریف تک کی تعلیم آپ نے ملک کے شہرہ آفاق جامعہ دارالعلوم عیدگاہ کبیروالا میں حاصل کی۔ اس زمانہ میں آپ کے اساتذہ میں حضرت مولاناعبدالمجیدلدھیانوی مدظلہ، حضرت مولانا علی محمدصاحب مرحوم اور حضرت مولانا منظورالحق مرحوم نمایاں شخصیات ہیں۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter