Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

35 - 142
	مقبول واعظ‘ بے بدل خطیب‘ نیک دل‘ پاکباز‘ بلند اخلاق اور علم وعمل کاپہاڑ تھے۔ تحریک آزادی اور تحفظ ختم نبوت کے لئے اکابر کے ہمراہ اگلی صفوں میں رہ کر مصروف جہاد رہے۔ کوٹلہ چاکر سے بہاول پور بستی مستیاں آگئے تھے۔ تمام بچوں کو دینی تعلیم دی۔ بڑے بیٹے حضرت مولانا عطاء الرحمن جامعہ مدنیہ بہاول پور کے شیخ الحدیث اور مہتمم ہیں۔ حضرت مولانا مفتی ابوبکر سعیدالرحمن جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹائون کراچی کے دارالافتاء میں مسندنشین ہیں۔ 
	حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ نے پوری زندگی فقروفاقہ سے گزاری۔ فوتگی کے وقت مجلس تحفظ ختم نبوت کے بیت المال کے ۳۶۵روپے آپ کے نام تھے۔ ملاتو کھالیا۔ نہ ملا تو شکر کرلیا۔ آپ کی نیکی وتقویٰ کے صدقہ میں آپ کی زندگی میں اولاد کے سرچھپانے وگزر بسر کا ایسے پردہ غیب سے انتظام ہوگیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مستیاں بستی سے سبزی لینے کے لئے سائیکل پر شہر جاتے ہوئے بستی غنی گوٹھ میں حافظ عبدالرشید کے ہاں رکے۔ علیک سلیک کے بعد چلنے لگے تو حافظ صاحب نے کہا کہ مولانا! آج غنی گوٹھ کے کھنڈر کی بولی ہے۔ میں نے حصہ لینا ہے۔ مجھے حصہ دار درکار ہے۔ آپ شامل ہوجائیں۔ آپ نے فرمایابہت اچھا۔ حافظ عبدالرشید‘ مولانامحمدشریف بہاول پوریؒ‘ اور صفدر صاحب حصہ راس (یعنی برابر حصہ دار) کی بنیاد پر بولی میں شامل ہوئے۔ بولی والی جگہ پر پہنچے تو پندرہ منٹ میں بولی شروع ہوگئی۔ ۲۱؍ایکڑ زمین ان کے نام اس پر بولی ختم ہوئی۔ اس طرح سات ایکڑ آپ کے حصہ میں آئے۔ کچھ پیسے قرض لے کر فوری جمع کرائے۔ باقی سب قسطیں بھی ادا ہوگئیں۔ اس زمین میں پہلے مسجدبنائی پھر مکان۔ یوں بچوں کے سرچھپانے کا قدرت نے انتظام کردیا۔
	ایک بار ڈیرہ غازی خان میں حضرت مولانا غلام محمد صاحبؒ مہتمم مدرسہ قاسم العلوم وخطیب مسجد پیارے والی نے کہا کہ ڈیرہ غازی خان میں پہاڑوں کے دامن میں کوڑیوں کے بھائو رقبہ مل رہا ہے۔ حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ نے فرمایا کہ اچھے تم میرے بھائی ہو کہ میرا حصہ نہیں رکھا۔ چند دنوں بعد حضرت مولانا غلام محمد نے پیغام بھیجا کہ ایک مربع آپ کے لئے الاٹ کرالیا ہے۔ پہلی قسط (چند صد) بھجوادیں۔ آپ نے قرض لے کر بھجوادئیے۔ بعد میں فرمایا کہ میں ساری زندگی یہ قرض کیسے اتاروں گا۔ قسطیں کون دے گا۔ چلو اس زمین کی جو آمد ہو وہ آپ رکھ لیں اور قسطیں ادا کرتے رہیں۔ چنانچہ ایسے ہوا۔ خود فوت ہوئے تو مقروض تھے۔ لیکن اولاد کے لئے ایک مربع زمین کا قدرت نے چھپرپھاڑ کر انتظام کردیا۔
	آخری سفر پر گھر سے روانہ ہونے لگے تو اپنے بڑے بیٹے شیخ الحدیث حضرت مولانا عطاء الرحمن سے فرمایا کہ والدہ ‘ بہن بھائیوں اور گھر کا خیال رکھنا۔ اب میرے بعد تم سب کچھ ہو۔ دفتر ملتان تشریف لائے۔ دو پروگراموں میں شرکت کی۔ واپس دفتر آئے تو طبیعت میں کچھ کمزوری اور گھبراہٹ محسوس کی۔ اپنے دونوں بیٹوں مولانا عطاء الرحمن اورحکیم عبیدالرحمن کو فون کرکے ملتان دفتر پہنچنے کے لئے پیغام دیا۔ ان کے آنے سے قبل پیٹ میں درد محسوس ہوا تو دفترکے ساتھیوں نے نشترہسپتال داخل کرادیا۔ دونوں بیٹے بھی ہسپتال آگئے۔ شام کو حکیم عبیدالرحمن چلے گئے اور مولانا عطاء الرحمن رہ گئے۔ ان سے فرمایا کہ صبح باپ بیٹا ایک ساتھ چلیں گے۔ 
	۱۴شعبان المعظم ۱۳۹۵ھ کو دن کے وقت ہسپتال داخل ہوئے اور ۱۵شعبان المعظم مطابق ۲۱اگست ۱۹۷۵ء کی شب اڑھائی بجے واصل بحق ہوگئے۔ اناﷲ واناالیہ راجعون! رات اڑھائی بجے دفتر ملتان‘ جامعہ مدنیہ بہاول پور اور گھر اطلاع ہوئی۔ صبح نماز سے قبل دفتر مرکزیہ ملتان آپ کے جسد خاکی کو لایا گیا۔ نماز کے بعد جنازہ کو گھر بہاول پور لیجانے کا نظم ہوا۔ نوبجے بہاول پور پہنچے۔ غنی گوٹھ کے قریب شریف آباد جہاں آج کل بائی پاس بنا ہے گھر سے باہر مسجد کے ساتھ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter