Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

34 - 142
آپ نے کیا دم کیا کہ بس آگے چلتی رہی۔ لیکن میرے دل ودماغ میں آپ کے رہ جانے کا افسوس گھر کئے رہا۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر آخر بس لے کر واپس آنا پڑا۔ آپ نے مسکراکر معاملہ ختم کردیا۔ اسی طرح ملتان سے مخدوم پور پہوڑاں کے لئے گاڑی پر سوار ہوئے۔ خانیوال پر نماز پڑھنے کے لئے اترے۔ نماز شروع کی ہی تھی کہ گاڑی چل دی۔ آپ نے اطمینان سے نماز مکمل کی۔ دعا سے فارغ ہوکر آئے تو دیکھا کہ پھاٹک پر پہنچ کر گاڑی رک گئی ہے۔ وہاں گئے تومعلوم ہوا کہ انجن بند ہوگیاہے۔ آپ سوار ہوئے۔ انجن سٹارٹ ہوگیا۔ گاڑی آپ کو لے کر چل پڑی۔
	حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ نے زندگی بھر سخت سے سخت مشقت برداشت کرکے تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیا۔ سائیکل‘ اونٹ‘ گھوڑا‘ خچر جوبھی ذریعہ اختیار کرنا پڑا کبھی عار محسوس نہیں کی۔ جہاں کہیں دیہات میں گئے گرمی کے دنوں میں آم کے پیڑ‘ کیکر‘ شیشم کے درختوں کے نیچے چارپائی بچھائی اور آرام کرلیا۔ فقیر راقم کے ہاں تشریف لائے۔ آموں کے باغ میں جلسہ تھا۔ سخت حبس کا موسم تھا۔ عوام جمع ہوگئے۔ لیکن پسینہ وگرمی سے جان جاتی تھی۔ اس زمانہ کے رواج کے مطابق چارپائی سے اسٹیج کا کام لیا۔ سرپر رومال رکھا۔ کرتہ اتارکر سینے پر کرلیااورکرتے کے بازئوں کو جھٹکا دے کر پشت پر کرلیا۔ پیٹ پر کرتا ڈالا ہوا ہے۔ ننگی پشت وعظ شروع کردیا۔ ڈھائی تین گھنٹے اس ہیت کذائی میں لوگوں کو قرآن سنایا۔ تبلیغ کا فریضہ نبھایا۔ اب تکلف کے دور میں اس سادگی کی داستانوں پر کون اعتبار کرے گا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہم تو واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں۔ 
	حضرت مولانا لال حسین اخترؒ کے انتقال کے بعد مجلس تحفظ ختم نبوت کے صدارتی چنائو کا اجلاس تھا۔ ملک بھر کے جماعتی رفقاء وعلماء موجود تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمدیوسف بنوریؒ صدراجلاس تھے۔ تلاوت کے بعد حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ اٹھے اور ٹھیٹھ سرائیکی میں چارپانچ جملے کہے اور حضرت بنوریؒ کو مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت کے لئے راضی کرلیا۔ حضرت بنوریؒ سے مخاطب ہوکر آپ نے فرمایا کہ حضرت! ختم نبوت کے تحفظ کا کام آپ کے استاذ حضرت مولانا سیدمحمدانورشاہ کشمیریؒ نے حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے ذمہ لگایا۔ حضرت امیرشریعتؒ نے خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادیؒ کو یہ امانت سونپی۔ حضرت قاضی صاحبؒ یہ بارگراںمجاہد ملت حضرت مولانامحمدعلی جالندھریؒ کے سپرد کرگئے۔ حضرت جالندھریؒ کے بعد حضرت مولانا لال حسین اخترؒ نے اس امانت کو سینے سے لگایا۔ ان حضرات کی یکے بعد دیگرے وفیات کے بعد اب ہم یتیم ہوگئے ہیں۔ اس وقت دنیا میں آپ حضرت مولاناسید محمدانورشاہ کشمیریؒ کے علوم کے وارث ہیں۔ ختم نبوت کے کام کو سنبھالیں۔ ہم آپ کی اس طرح اطاعت کریں گے جس طرح پہلے اکابر کی کی۔ اگر نہیں تو یہ لیجئے چابیاں اور دفترکو تالا لگادیں۔ ہم بھی گھروں کو جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر ہاتھ میں پہلے سے موجود چابیوں کا گچھا حضرت بنوریؒ کی طرف بڑھادیا اور روتے ہوئے کہا کہ آپ نے مجلس کی امارت نہ سنبھالی تو کام کے بند ہوجانے کے آپ ذمہ دار ہوں گے۔ اس طرح کے چند جملوں میں ایسی مؤثر گفتگو کی کہ نہ صرف حاضرین بلکہ حضرت بنوریؒ کی بھی ہچکی بندھ گئی۔ حضرت بنوریؒ نے مجلس کی امارت قبول فرمالی۔
	 چند ماہ بعد ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں قادیانی غیر مسلم اقلیت قرارپائے تو حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ کے دل بے قرار کو قرارآگیا۔ اس دور کی آپ کی تقریروں کا کچھ سماں ہی اور ہوتا تھا۔ آپ خود بھی روتے تھے اور لوگوں کو بھی رلاتے تھے۔ دل سے بات کہتے تھے اور سامعین کے دلوں سے منواتے تھے۔ آخری وقت تک بہت بہادری‘ محنت اور وفاداری سے مجلس کا کام کرتے رہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter