Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

33 - 142
تھے۔ ان کی مترنم آواز وخطابت کا اپنا انداز تھا۔ جب قرآن مجید پڑھتے اور ترنم سے اس کے معانی ومعارف بیان کرتے تو اجتماع پر جادو کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ واقعی جادو بیان خطیب تھے۔ 
	درمیانہ قد‘ جسم کسرتی‘ کشادہ پیشانی‘ منور چہرہ‘ گندمی رنگ‘ سرپر زلف بنگال کی طرح بال‘ عقابی نگاہ‘ مست بیانی‘ الہڑجوانی‘ خوبصورت ترنم‘ گرجدار آواز کے خمیر سے حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ کی خطابت نے اٹھان بھری۔ جہاں گئے لوگوں کے دل موہ لائے۔ درویش منش‘ تکلفات سے کوسوں دور‘ شریف النفس‘ کریم الطبع‘ غربت کے باوجود دریادل سخی‘ آنکھوں کے غنی‘ نام کی نسبت کے پاسدار‘حیاء وشرافت کا پیکر تھے۔ آپ کو قدرت نے بہت ہی مقبولیت اور ہردل عزیزی سے نوازا تھا۔ حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ قطب الارشاد سے بیعت تھے۔ حضرت مولانا حسین علیؒ واں بچھراں‘ حضرت مولاناحماداﷲ ہالیجویؒ سے اصلاح کا تعلق رہا۔ تہجد‘ اشراق‘ اوابین اور یومیہ تلاوت کلام اﷲ نے آپ کو صوفی منش بزرگ بنادیا تھا۔ لوگ آپ سے دیوانہ وار محبت کرتے تھے۔ 
	قیام پاکستان کے بعد حضرت امیر شریعتؒ اور آپ کے گرامی قدر رفقاء نے مجلس تحفظ ختم نبوت کی بنیاد رکھی تو آپ اس کے بانی رہنمائوں میں شامل تھے۔ دم واپسیں تک آپ کا مجلس کے ممتاز رہنمائوں میں شمار رہا۔ حضرت خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادیؒ کے بعد مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ مجاہد ملت حضرت مولانا محمدعلی جالندھریؒ اور مرکزی ناظم اعلیٰ حضرت مولانا لال حسین اخترؒ قرارپائے۔ تب مجلس کے مرکزی صدرالمبلغین کا اعزاز حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ کے حصہ میں آیا۔ آپ آخری سانس تک مجلس کے صدر المبلغین رہے۔ 
	۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں آپ نے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ بڑی بہادری سے جیل کاٹی۔ ایک دور میں سالانہ آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ میں آپ کا بڑے اہتمام سے گھنٹوں بیان ہوتا تھا۔ 
	حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ سادگی کا پیکر تھے۔ کرتا‘ ٹوپی‘ تہبنداکثر کھدر کا زیب تن کرتے تھے۔ آپ کے بودوباش‘ رہن سہن کو دیکھ کر اہل نظر جانتے تھے کہ انہوں نے اپنی ولایت کے لعل بے بہاکو گودڑی میں چھپا رکھا ہے۔ زندگی بھر کپڑے کا سادہ سا ’’جھولا‘‘ ہمراہ رکھا۔ ایک جوڑا زیب تن‘ دوسرا جوڑا کپڑے کے تھیلہ میں ساتھ ہوتا۔ مجلس کی رسید بک اور کاپی کا ایک کاغذ جس پر مہینہ بھر کے پروگرام لکھے ہوتے گویا یہی آپ کی ڈائری تھی۔ ساتھ ہوتی تھیں۔ جسم کے کپڑے میلے ہوگئے تو دوسرا جوڑا پہن لیا جو اتارا اسے دھویا‘ خشک کرکے تہہ کیا اور تھیلا میں ڈال لیا۔ آج کل کے نام ونمود کے بھوکے خطیب جب گھر سے ہفتہ بھر کے سفر پر نکلتے ہیں تو کئی جوڑے کپڑوں سے سوٹ کیس بھرا۔ ڈگی میں رکھا جاتا ہے۔ ہائے کتنا اصل ونقل میں فرق ہوگیا ہے۔
	حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ نماز کے اتنے سختی سے پابند تھے کہ ایک دفعہ رحیم یارخان سے بہاول پور کے لئے بس پر سوار ہوئے۔ احمدپورشرقیہ پہنچے تو عصر کا وقت ہوگیا۔ ڈرائیور سے نماز کے لئے کہا۔ وہ ضد کرگیا تو آپ نے ٹکٹ چھوڑدیا اوربس سے اترگئے۔ بس چل پڑی۔ آپ نے اطمینان سے نماز پڑھی۔ اس دور میں خال خال بسیں چلتی تھیں۔ دوسری بس ملے نہ ملے۔ اس ماحول میں دل کی لو اﷲ تعالیٰ کی یاد سے لگاکر دھونی رمائی بیٹھ گئے۔ اﷲ تعالیٰ کے کرم کا معاملہ ہوا۔ نور پور نورنگا یا خانپورمرچاں والا سے ڈرائیور نے بس واپس کی۔ احمدپور شرقیہ آکر آپ کو مسجد سے اٹھایا۔ آپ چپ چاپ اٹھے اور بس میں سوار ہوگئے۔ ڈرائیور نے کہا کہ مولوی صاحب! 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter