Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

32 - 142
ہمدرس حضرت مولانا علی محمدؒ صاحب تھے جو بعد میں دارالعلوم کبیروالا کے شیخ الحدیث اور مہتمم بنے۔
	 اسی طرح معروف عالم دین اور سیاسی رہنما علامہ رحمت اﷲ ارشدؒ بہاول پوری کی روایت کے مطابق جامعہ عباسیہ بہاول پور میں بھی آپ نے تعلیم کے لئے جادہ پیمائی کی۔ علامہ ارشدؒ آپ کے ہمدرس تھے۔ جامعہ عباسیہ بہاول پور میں کسی مسئلہ پر طلباء نے ہڑتال کی تو انتظامیہ نے تمام طلباء کا خارجہ کردیا۔ دوبارہ نیک چال چلنی کا حلفیہ سرٹیفیکیٹ سفارش وضمانتوں کے بعد داخلہ تجویز ہوا۔ علامہ ارشدؒ راوی ہیں کہ ہماری کلاس میں سب سے نیک وصالح نوجوان حضرت مولانا محمدشریفؒ بہاول پوری کا کوئی طالب علم ثانی نہ تھا۔ طالب علموں نے ضمانتیوں کی ضمانت اور سفارشوں سے جامعہ عباسیہ میں دوبارہ داخلہ لے لیا۔ مولانا محمدشریفؒ کے پاس نہ ضمانتی تھا نہ سفارشی۔ آپ نے سمہ سٹہ سے دہلی ریل کا ٹکٹ لیا اور دہلی جاپہنچے۔ دیوبند گئے۔ وہاں داخلے مکمل ہوچکے تھے تو واپس دہلی جامعہ امینیہ میں آکر مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲؒ کے ہاں علوم کی تکمیل اور دورہ حدیث شریف کیا۔
	بظاہر سفارش وضمانت نہ ہونے کے باعث جامعہ عباسیہ بہاول پور میں آپ کو دوبارہ داخلہ نہ ملا۔ لیکن بباطن قدرت کا آپ پر کرم کا فیصلہ ہوا۔ ورنہ جامعہ عباسیہ سے تکمیل کے بعد آپ کسی سرکاری ادارے میں ملازم ہوجاتے۔ جبکہ قدرت کو آپ سے تبلیغ اسلام کا کام لینا تھا۔ جامعہ امینیہ دہلی سے دورہ حدیث کے بعد چار سالہ طبابت کا کورس آپ نے لقمان الہند جناب حکیم اجمل خانؒ سے مکمل کیا۔ واپس آکر اپنے گائوں کوٹلہ چاکر چھ ماہ تدریس‘ امامت وخطابت اور مطب کا کام کیا۔
	 مجلس احراراسلام کہروڑپکا کی ۱۹۳۵ء کے کسی اجلاس کی کاروائی آپ کے صاحبزادہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عطاء الرحمن نے پڑھی ہے۔ جس میں مجلس احرار کہروڑپکا نے ریزولیشن پاس کیا کہ کہروڑپکا میں احرار کانفرنس کی تیاری ودعوت کے لئے حضرت مولانا محمدشریف ساکن کوٹلہ چاکر کو ہفتہ بھر پروگراموں کے لئے دعوت دی جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے ۱۹۳۵ء سے قبل آپ دہلی سے عالم‘ اور طبیب کا کورس مکمل کرکے یہاں تشریف لاچکے تھے۔ مجلس احرار اسلام کل ہند کی باضابطہ تشکیل ۲۹دسمبر۱۹۲۹ء کو ہوئی۔ گویا مجلس احراراسلام کے قیام کے ٹھیک پانچ سال بعد حضرت مولانا محمدشریفؒ بہاول پوری اس کے نہ صرف باضابطہ ممبر بلکہ مشہور خطیبوں میں شمار ہونے لگے۔
	مجلس احرار کے پلیٹ فارم سے آزادی ملک کے لئے آپ سرگرم رہے۔ مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ کی مادری زبان سرائیکی تھی۔ دہلی کے قیام نے آپ کو اردو کا بھی قادر الکلام خطیب بنادیا تھا۔ بہاول پور‘ بہاول نگر‘ رحیم یارخان‘ ڈیرہ غازی خان‘ بھکر‘ لیہ‘ میانوالی‘ راجن پور‘ مظفرگڑھ اور اندرون سندھ آپ کی خطابت سے گونجنے لگے۔ خطابت کے شہسواروں کا دوسرا نام مجلس احراراسلام تھا۔ تاہم حضرت مولانا گل شیرؒ اور حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ دو ایسے خطیب تھے جن کی خطابت میں لحن دائودیؑ‘سوز رومیؒ اور ساز رازیؒ کا واضح پرتو تھا۔ ترنم سے تقریر کرتے تو مجمع پر جادو کردیتے تھے۔ ان دو حضرات کے بعد (سرائیکی پٹی میں) اس دور میں اگر کسی نے خطابت کی دھاک بٹھائی ہے تو وہ حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ اور حضرت مولانا حافظ اﷲ وسایا ڈیرہؒ غازی خان تھے۔ حافظ صاحبؒ صرف واعظ تھے۔ جبکہ مولانا بہاول پوریؒ خوش الحان مقرر اور نظریاتی خطیب تھے۔ بلامبالغہ حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ کو جن لوگوں نے دیکھا ہے یا سنا ہے وہ گواہی دیں گے کہ مولانا شریفؒ صاحب طرز خطیب 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter