Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

31 - 142
صحابہؓ پر آپ کی مستقل تصنیف موجود ہے۔ جس سے خود بخود تشیع کا الزام غلط ہوجاتا ہے۔ البتہ احتمال ہے کہ حالات کے باعث حضرت علیؓ اور دیگر اہل بیت کے دفاع کے متعلق کچھ تشدد پیدا ہوگیا ہو۔ورنہ خلفائے راشدین کی ترتیب خود نسائی میں ہے۔ ان سے تشیع کے الزام کی تردید کے لئے کافی ہے۔ مثلاً باب امامتہ اہل العلم والفضل کی روایت اس کی دلیل تام ہے۔ بعض حضرات نے ان کو شافعی المسلک لکھا ہے۔ مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ فیض الباری میں ان کو حنبلی قرار دیتے ہیں۔ امام نسائیؒ، حسن سیرت کی طرح حسن صورت میں بھی نمایاں تھے۔ بڑے وجیہہ شکیل ومتین تھے۔ پرشکوہ روشن چہرہ رنگ سرخ وسفید تھا۔ حتیٰ کہ بڑھاپے میں بھی حسن وتازگی میں فرق نہیں آیا۔ ان کی تصانیف میں سنن نسائی‘ کبیر وصغیر مشہور ہیں۔ صحاح ستہ میں سنن نسائی صغیر شامل ہے۔ اس کی بھی کئی شروح لکھی گئیں۔ لیکن باقی صحاح کے مقابلہ میں سنن نسائی کی شروحات کی تعدادبہت کم ہے۔ (لولاک ذی الحجہ ۱۴۲۳ھ)
(۱۲)  …  حضرت مولانامحمدشریف بہاول پوریؒ
(وفات ۲۱؍اگست ۱۹۷۵ئ)
	شہرۂ آفاق فاتح جرنیل محمدبن قاسمؒ نے سندھ وملتان پر اسلامی پرچم لہرایا۔ اس وقت حجاز سے ۱۲ہزار فوج ان کے ساتھ یہاں آئی تھی۔ جن میں ۶ہزار فوجی بنوتمیم سے تھے۔ سندھ وملتان کی فتح کے بعد فرمانروائے حجاز نے اسلامی فوج کے جرنیل محمدبن قاسمؒ کو تو واپس طلب کرلیا۔ لیکن پوری فوج ان علاقوں میں رہی۔ محمود غزنویؒ کے عہد میں یہ فوج سندھ‘  للّہ ضلع جہلم‘ دہلی‘ ملتان میں منقسم ہوکر قیام پذیر ہوگئی۔ بنوتمیم سے تعلق رکھنے والے اسلامی فوجیوں کی نسل آگے بنوتمیم سے ’’تھہیم‘‘ کہلائی۔ 
	تھہیم برادری کے جناب جندوڈاؒکے ہاں کوٹلہ چاکر ضلع لودھراں میں بیسویں صدی کے پہلے عشرہ میں محمدشریف پیدا ہوئے جو بعد میںخطیب اسلام حضرت مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ کہلائے۔ مولانا محمدشریف بہاول پوریؒ کے والد گرامی کی توجہ ومحنت سے کوٹلہ چاکر میں جامع مسجد تعمیر ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد اس میں مدرسہ جاری ہوا۔ حضرت مولانا کریم بخش صاحبؒ وہاں تعلیمی خدمات سرانجام دینے لگے۔ مولانا محمدشریفؒ کے والد گرامی جند وڈاؒ کے پانچ صاحبزادے تھے۔ غربت کا دور تھا۔ سفید پوشی قائم رکھنا مشکل تھا۔ چنانچہ علاقہ کے اس دور کے رواج کے مطابق مولانا محمدشریفؒ نے بچپن میں ایک زمیندار کے ہاں جانوروں کی دیکھ بھال شروع کردی۔ چودہ پندرہ سال عمر ہوگی۔ طبیعت صالح پائی تھی۔ پانچوں وقت باجماعت نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آتے۔جناب میاں خدا بخش صاحبؒ محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔ ان کی ترغیب وحوصلہ افزائی پر ان کے ہاں فارغ وقت میں قرآن مجید ناظرہ اور ابتدائی فارسی پڑھی۔ مزید تعلیم حاصل کرنا یہاں ممکن نہ تھا اور نہ ہی گھریلو حالات کے باعث والد صاحب مزید تعلیم کے لئے باہر جانے پر رضامند تھے۔
	حضرت مولانا محمدشریفؒ نے حصول تعلیم کی دل میں لگی تڑپ کو بجھانے کے لئے تو کلاً علی اﷲ بغیر کسی کو بتائے رخت سفر باندھا۔ شجاع آباد شاہی مسجد جادھمکے۔ حضرت مولانا قاضی محمدامین مرحوم نے طلباء کی بہتات اور جگہ کی تنگی کا عذر کیا تو ’’چھجوشاہ‘‘ میں داخل مدرسہ ہوگئے۔ اس کے بعد مظفرگڑھ ضلع کے معروف دینی مدرسہ کانڈھ میں پڑھتے رہے۔ گوگڑاں ضلع لودھراں میں مولانا سید پیرامام شاہ صاحبؒ کے ہاں بھی تعلیم پائی۔ نحو کی معروف زمانہ کتاب ’’کافیہ‘‘ مکمل آپ کو یاد تھی۔ مدرسہ عبیدیہ قدیر آباد ملتان میں آپ پڑھتے رہے۔ اس مدرسہ میں آپ کے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter