Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

30 - 142
فلاں فلاں راوی کی بھی ہیں۔ اس پر سب سے پہلے ابن حجر نے محنت کی۔ اللہاب فیما یقول الترمذی فی الباب مرتب کی۔ اس کی نقل مدینہ منورہ کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ 
	ہمارے پاکستان میں شیخ الاسلام امام المحدثین مولانا محمد یوسف بنوری ؒ کے شاگرد مولانا حبیبؒ اللہ نے محنت کرکے ہزاروں صفحات حدیث سے استخراج عما یقول الترمذی فی اللباب مرتب کی۔ اس کی کئی جلدیں ان کی زندگی میں چھپ گئی تھیں۔ سنا ہے کہ ان کی باقی کتاب تقریباً مکمل ہوگئی تھی مگر وہ چھپی نہیں۔ پاکستان کے تمام شیوخ حدیث جامعتہ العلوم الاسلامیہ کراچی کے حضرات کو توجہ دلائیں تو یہ خزانہ عامرہ سامنے آسکتا ہے۔ ترمذی شریف کی دس سے زائد شروع تو عام طورپر بہت مشہور ہیں۔ (لولاک رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ)
(۱۱)  …  حضرت امام نسائیؒ
(پیدائش ۲۱۵ھ، وفات ۳۰۳ھ)
	نام احمد‘ کنیت ابوعبدالرحمن ہے۔ پورا نسب نامہ احمد بن علی بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر بن دینار ہے۔ خراسان ماوراء النہر کے علاقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ خراسان کا ایک شہر نساء ہے جسے آپ کے مولدو مسکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسی سے منسوب ہوکر نسائی کہلائے۔ امام صاحب ۲۱۵ہجری میں پیدا ہوئے۔ خراسان‘ عراق‘ حجاز‘ جزیرہ‘ شام ومصر کے شیوخ سے تعلیم حاصل کی۔ پھر مصر کو اپنے علوم کی نشرواشاعت کا ذریعہ بنایا۔ آخری عمر میں مصر سے دمشق آگئے تھے۔ ان کے شیوخ میں اسحق بن راہویہؒ‘ محمد بن بشارؒ‘ امام ابودائودؒ اور امام بخاریؒ شامل ہیں۔ ابن حجرؒ نے آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست نقل کرنے کے بعد فرمایا:’’وامم لایحصون۰‘‘ زہد و ورع میں اپنی مثال آپ تھے۔ صوم دائودی کے پابند تھے۔ ایک دن روزہ، ایک دن افطار کا معمول تھا۔ دن رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزرتا تھا۔ کثرت سے حج کئے۔ جہاد کا بھی جذبہ رکھتے تھے۔ سنت کے قائم کرنے اور بدعت کو مٹانے میں حریص تھے۔ اپنے زمانہ میں حدیث کے امام تھے۔ ابوبکر صدادؒ نے باوجود کثیر الحدیث ہونے صرف امام نسائی سے روایت کی ہے۔ فرماتے تھے میں نے امام نسائی کو اپنے اور اﷲ تبارک وتعالیٰ کے درمیان حجت بنایا ہے۔ بعض آئمہ حدیث نے امام مسلم سے بھی حدیث میں نسائی کا درجہ اونچا تسلیم کیا ہے۔ علامہ ذہبیؒ سیر اعلام النبلاء میں امام نسائی کے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ یہ مسلم‘ ترمذی‘ ابودائود سے علل حدیث اور علم الرجال میں زیادہ ماہر ہیں۔ بخاری اور ابوزرعہ کے ہم عصر ہیں۔ مصر سے ذی قعدہ ۳۰۲ہجری میں فلسطین کے علاقہ رملہ آگئے تھے۔ شام میں بنی امیہ کی طویل حکومت کے باعث خارجیت وناصبیت کا زور تھا۔ امام نسائی یہاں سے دمشق گئے۔ جامع مسجد دمشق میں منبر پر چڑھ کر کتاب خصائص علیؓ سنانی شروع کی۔ ابھی تھوڑی پڑھی تھی کہ سامعین سے کسی نے سوال کردیا کہ مناقب امیر معاویہؓ پر بھی آپ نے کوئی کتاب لکھی ہے؟ فرمایا حضرت معاویہؓ کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ برابر سرابر چھوٹ جائیں۔ دوسری روایت ہے کہ آپ نے کہا کہ مجھ کو ان کے مناقب میں بجز اس حدیث کے لااشبع اﷲ بطنہ کے اور کوئی حدیث نہیں پہنچی۔ اس پر عوام مشتعل ہوگئے۔ شیعہ ہونے کا الزام لگاکر زدوکوب کیا۔ جس سے امام صاحبؒ نیم جان ہوگئے۔ اس حالت میں لوگ مکان پر لائے۔ آپ نے فرمایا مجھے مکہ مکرمہ لے چلو تاکہ میرا انتقال وہاں ہو۔ چنانچہ مکہ مکرمہ میں ۱۳صفر۳۰۳ہجری کو دو شنبہ کے روز انتقال فرمایا۔ صفا و مروہ کے درمیان تدفین ہوئی۔ بعض روایتوں کے مطابق شعبان میں انتقال ہوا اور رملہ میں مدفون ہیں۔ انتقال کے وقت عمر مبارک ۸۸ سال تھی۔ شام میں خارجیت کا زور تھا۔ آپ نے اس لئے مناقب علیؓ میں کتاب لکھی تاکہ حضرت علیؓ کے مخالفین کو اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعہ ہدایت دیں اور برملا حق کا اظہار کیا۔ دشمنی میں لوگوں نے تشیع کا الزام لگادیا۔ حالانکہ فضائل 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter