Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

28 - 142
(۱۰)  …  حضرت امام ترمذیؒ
(پیدائش ۲۰۵ھ، وفات ۲۷۹ھ)
	نام محمد‘ کنیت ابوعیسیٰ‘ قبیلہ بنو مسلم‘ پورا نسب نامہ یوں ہے۔ محمد بن عیسیٰ بن سورہ بن موسیٰ بن ضحاک سلمی ترمذی بوغی۔ بوغی قریہ بوغ کی جانب منسوب ہے۔ بعض راویوں کے مطابق امام ترمذی اس قریہ بوغ میں آسودہ خاک ہیں جو ترمذ سے چھ فرسخ کی مسافت پر ہے۔ امام ترمذی ۲۰۵ھ میں ترمذ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا انتقال ۲۷۹ھ میں ہوا۔ ستر سال سے زائد عمر پائی۔ امام ترمذی جس دور میں پیدا ہوئے۔ یہ دور علم و فضل کے اعتبار سے درجہ شہرت پر تھا۔ باالخصوص خراسان اور ماوراء النسر کو تو مرکزیت حاصل تھی۔ امام صاحب نے خراسان‘ عراق اور حجاز میں حصول علم کے لئے جادہ پیمائی کی۔ بخاری‘ مسلم‘ ابی داؤد آپ کے شیوخ میں شامل ہیں۔ زیادہ استفادہ امام ترمذی نے امام بخاریؒ سے کیا۔ چنانچہ حاکم نے موسیٰ بن علک کا مشہور قول ان کے بارہ میں یہ نقل کیاہے:’’ مات البخاری فلم یخلف خراسان مثل ابی عیسیٰ فی العلم والحفظ والورع والزہد‘‘ خراسان میں علم وحدیث کے حفظ‘ زہد و تقویٰ میں امام بخاری کے جانشین ابوعیسیٰ ترمذیؒ جیسا اور کوئی نہ تھا۔
	خود امام بخاریؒ کو بھی اپنے مایہ ناز شاگرد امام ترمذی پر اتنا اعتماد تھا کہ ان الفاظ میںا مام ترمذی کو سند عطاء کی :’’ماانتفعت بک اکثر مما انتفعت بی۰‘‘ آپ نے مجھ سے جتنا فائدہ اٹھایا اس سے کہیں زیادہ میں نے آپ سے فائدہ اٹھایا۔ شاگرد کے متعلق امام بخاری ایسے استاذ کا یہ فرمانا امام ترمذی کے لئے لائق فخر بات تھی۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ ذہین شاگرد جب استاد سے سوال کرتا ہے تو استاد کی نگاہ دیگر علوم کی طرف جاتی ہے اور کئی پوشیدہ گوشہائے علم سامنے آجاتے ہیں۔ امام ترمذیؒ کے لئے اس سے بڑا کیا اعزاز ہوگا کہ امام بخاری نے امام ترمذی سے دوروایات نقل کی ہیں۔
	(۱)…… کتاب التفسیر میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت :’’فی قول اللہ عزوجل ما قطعتم‘‘ کے تحت (۲)…… حضرت ابوسعیدؓ کی روایت:’’ یاعلی لایحل لاحد ان یجنب فی ھذاالمسجد غیری وغیرک‘‘ (باب مناقب علیؓ) 
	ان دونوں کی تخریج کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں قد سمع محمد بن اسماعیل فی ہذا الحدیث امام بخاری کے انتقال کے بعد خراسان میں امام ترمذی کے ہم پلہ کوئی امام حدیث نہ تھا۔ اس لئے آپ کی ذات مرجع خلائق بن گئی۔ امام ترمذی کو حق تعالیٰ شانہ نے حافظہ کی بیش نعمت سے وافر حصہ مرحمت فرمایا تھا۔ ان کی زندگی کا یہ واقعہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے ایک شیخ سے دو جز احادیث کی سماعت کی اور ان کو قلمبند کیا۔ کچھ عرصہ بعد اسی شیخ سے امام ترمذی کی ملاقات ہوئی۔ شیخ سے احادیث کے مزید سماع کے لئے درخواست کی۔ شیخ نے فرمایا لکھو آپ کاغذ قلم لیکر بیٹھ گئے۔ اتفاق کہ قلم میں روشنائی ختم تھی۔ بس کاغذ پر خالی قلم کو چلاتے رہے۔ شیخ کو اندازہ ہوا کہ یہ لکھ نہیں رہے۔ بس یونہی قلم پھیر رہے ہیں۔ بیاض کو دیکھا تو وہ بالکل سفید تھی۔ شیخ بہت برہم ہوئے۔ امام ترمذی نے معذرت کی، اور کہا حضرت آپ کی محنت ضائع نہیں گئی اور اس مجلس میں شیخ نے جتنی روایات بیان فرمائی تھیں۔ ا مام ترمذی نے فرفر اسی بیان کردہ ترتیب سے وہ تمام روایات سنادیں۔ شیخ کو شبہ ہوا کہ شاید ان کو پہلے سے یاد تھیں۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ آپ ابھی مزید سنادیں اور مجھ سے سن لیں۔ شیخ نے غرائب الاحادیث سے چالیس روایات سنادیں۔ حضرت امام ترمذی نے وہ تمام بھی زبانی اپنے شیخ کو اس مجلس میں سنادیں۔ شیخ اپنے عدیم المثال حا فظہ کے شاگرد امام ترمذی پر بہت خوش ہوئے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter