Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

26 - 142
طبقہ کے لحاظ سے بہت عالی ہیں۔ مگر سند کے اعتبار سے ان کا کوئی خاص وزن نہیں۔ علامہ ذہبیؒ نے امام ابوزرعہؒ کے متعلق فرمایا :’’ کان من افراد الدھر حفظاً وذکائً دینا عملاً وعلماً ۰‘‘ ابوزرعہؒ حفظ حدیث ذکاوت دین داری علم وعمل کے زمانہ سے یکتائے روزگار اشخاص میں سے تھے۔ یہی امام ابوزرعہ نے ابن ماجہ کو دیکھ کر یہ سند عطا کی کہ اگر یہ کتاب (ابن ماجہ) لوگوں کے ہاتھ پہنچ گئی تو فن حدیث کی اکثر جو امع اور مصنفات بیکار ومعطل ہوجائیں گی۔ چنانچہ حافظ ابوزرعہ کی حرف بہ حرف پیشگوئی پوری ہوئی۔ مثلاًصحیح ابن حبان صحت وقوت اسناد کے لحاظ سے ابن ماجہ سے اصح ہے۔ مگر جو قبولیت ابن ماجہ کو ملی وہ صحیح ابن حبان کو نہیں ملی۔ حافظ ابو الفضل محمد بن مطاہر مقدسی (۵۰۷ہجری) جنہوں نے ابن ماجہ کو صحاح ستہ میں شمار کیا۔ اس کے بعد تمام مصنفین نے ان کی پیروی کی حافظ ابن حجر نے اس میں منکر احادیث کی تعداد زیادہ فرمائی ہے۔ لیکن دوسرے حضرات نے تصریح کی کہ منکر کا قول رجال ابن ماجہ کی طرف کرنا اولیٰ ہے۔ حدیثوں پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ جن روایات میں ابن ماجہ منفرد ہیں۔ ان میں صحیح حدیثیں بھی ہیں۔ حسن بھی اور ضعیف بھی۔ ان وجوہ کی بنیاد پر ابن ماجہ کا درجہ آخر میں رکھا گیا۔ سنن ابن ماجہ میں بتیس کتابیں پندرہ سو ابواب اور چار ہزار احادیث ہیں۔ گیارہ شروحات ابن ماجہ کی متد اول ہیں۔ (لولاک ذیقعدہ ۱۴۲۳ھ)
(۹)  …  حضرت امام داؤدؒ
(پیدائش ۲۰۲ھ، وفات ۲۷۵ھ)
	حضرت امام ابوداؤدؒ  کا اسم گرامی۔ سلیمان۔ والد کا نام اشعث اور دادا کا نام اسحق تھا۔ امام صاحب کی کنیت ابوداؤد تھی۔ ہرات اور سندھ کے درمیان بلوچستان کے قریب سیتان نامی جگہ کے رہنے والے تھے۔ سیتان کا معرب سجستان ہے۔ اس لئے ابوداؤد سجستانی کے نام سے معروف ہوئے۔ یہ قول حضرت شاہ عبدالعزیزؒ  کا ہے۔ ابن خلکان نے سجستان کو بصرہ کے دیہات میں شمار کیا ہے۔ لیکن اس کے جغرافیہ میں اس کا نام تک نہیں۔ یا قوت حموی نے خراسان کے اطراف میں سجستان کا واقع ہونا بیان کیاہے۔ زیادہ قرین قیاس یہی ہے۔ ان کے بقول اس کا نام سجز ہے۔ اس لئے امام صاحب امام ابی داؤد سجزیؒ بھی کہلاتے ہیں۔ 
	امام صاحب ۲۰۲ھ میں پیدا ہوئے۔ حصول تعلیم کے لئے زندگی کا بڑا حصہ بغداد میں گزارا اور وہیں سنن ابوداؤد کی تالیف کی۔ ۲۷۱ھ میں بغداد کو خیر باد کہا۔ اور زندگی کے آخری چار سال بصرہ میں گزارے۔ ۲۷۵ھ بصرہ میں جمعہ کے دن رحلت فرمائی۔ ابن حجرؒ کے اندازے میں تین سو سے زائد شیوخ سے اکتساب علم کیا۔ حضرت امام بخاریؒ کے بہت سے شیوخ سے حضرت امام ابوداؤدؒ نے بھی حدیث کا سماع کیا۔ حضرت امام ترمذیؒ اور حضرت امام نسائی  ؒ حضرت امام ابوداؤدؒ کے شاگرد ہیں۔ فقہ وعلم کلام‘ حفظ حدیث‘ زہدو  ورع اور عبادت و یقین و توکل میں یکتائے روزگار تھے۔ مشہور بات ہے کہ ان کے کرتہ کی ایک آستین تنگ اور دوسری کشادہ تھی۔ فیشن کے دلدادہ اس بے ڈھب سلائی پر متعجب ہوں گے۔ لیکن جب آپ سے دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ اپنا نوشتہ ایک آستین میں رکھ لیتا ہوں اس لئے اسے کشادہ رکھا ہے۔ دوسرے کو کشادہ کرنے کی ضرورت نہ تھی اسے تنگ رکھ لیا۔ 
	ورع و تقویٰ‘ عفت و طہارت میں بہت اونچے مقام پر فائز تھے۔ کہا گیا ہے کہ امام موصوف رفتار و گفتار میں اپنے استاد حضرت امام احمدبن حنبلؒ کے بہت مشابہ تھے۔ حافظ موسیٰ بن ہارونؒ آپ کے ہمعصر تھے۔ فرماتے ہیں کہ حضرت امام ابوداؤدؒ دنیا میں حدیث اور آخرت میں جنت کے لئے پیدا 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter