Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

25 - 142
لکھتے رہیں تب اس کتاب سے استفادہ کے بغیر انہیں چارہ کار نہ ہوگا۔ تصنیف کتاب سے اس وقت تک ہر دور میں اس کی قرأت امت میں معمول بہا رہی۔ اس کی شروحات کا ایک ذخیرہ ہے۔ (لولاک شعبان المعظم ۱۴۲۳ھ)
(۸)  …  حضرت امام ابن ماجہؒ
(پیدائش ۲۰۹ھ، وفات ۲۷۳ھ)
	نام محمد‘ کنیت ابوعبداﷲ‘ الرابعی القزوینی نسبت اور ابن ماجہ عرف ہے۔ نسب نامہ یوں ہے۔ ابوعبداﷲ محمد بن یزید‘ بن عبداﷲ بن ماجہ الرابعی باالولاء القزوینی ہے۔
	بعض حضرات نے دادا کا نام ماجہ لکھا ہے۔ بعض نے اسے والدہ کا نام قرار دیا ہے۔ عجالہ نافع میں شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ م’’اجہ لقب پدر ابوعبداﷲ است نہ لقب جدا ونہ نام مادر‘‘ ماجہ نہ ماں کا نام ہے نہ داد کا بلکہ امام صاحب کے والد کا لقب ہے۔ اور یہی صحیح اور قرین قیاس ہے۔ قزوین ایران کا مشہور شہر ہے جسے آپ کے مولد ومسکن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسی نسبت سے قزوینی کہلاتے ہیں۔ آپ ۲۰۹ہجری میں پیدا ہوئے۔ قزوین کے جید علماء بقید حیات تھے۔ آپ نے ان سے استفادہ کیا۔ عمر کے اکیسویں سال ۲۳۰ہجری میں سماع حدیث کے لئے عراق‘ بصرہ‘ کوفہ‘ بغداد‘ مکہ‘ مصر اور رئی کا سفر کیا۔ حافظ ابن حجر نے خراسان اور شام میں تحصیل علم کے لئے جانا بھی لکھا ہے۔
	مشہور محدث ابوبکر بن شیبہؒ سے خصوصیت سے تحصیل علم کیا۔ امام مالکؒ اور امام لیث کے شاگردوں سے استفادہ کیا۔ آپ کے تلامذہ کی فہرست بھی طویل ہے۔ مورخ ابن خلکان نے آپ کو امام فی الحدیث اور متعلقات حدیث کے علوم کا ماہر قرار دیا ہے۔ ابن کثیر نے آپ کے علم وعمل اور تبحر علمی اور اصول وفروع کا ماہر قرار دیا ہے۔ علامہ ذہبیؒ نے فرمایا: ’’قدکان ابن ماجہ حافظاً صدوقاً واسع العلم‘‘  مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے آپ کو شافعی المسلک قرار دیا ہے۔ ۲۱ رمضان ۲۷۳ہجری کو انتقال فرمایا۔ اگلے دن تدفین ہوئی۔ اس اعتبار سے چونسٹھ سال عمر مبارک ہوئی۔ آپ کی تصنیفات میں ایک تفسیر کا بھی ذکر ملتا ہے۔ گرانقدر تصنیف آپ کی سنن ابن ماجہ ہے۔ حافظ ابن حجرؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں:’’ وکتابہ فی السنن جامع جید‘‘ ان کی کتاب سنن (احکام) میں ایک عمدہ جامع ہے۔ 
	حافظ ابن کثیرؒ نے ابن ماجہ کو نہایت مفید کتاب کہا۔ صرف مسائل فقہ کے اعتبار سے اس کی ترتیب وتبویب کی تعریف کی۔ شاہ عبدالعزیزؒ فرماتے ہیں کہ فی الواقع حسن ترتیب‘ عدم تکرار اور اختصار جو اس کتاب میں ہے اور کسی کتاب میں نہیں۔ اس میں نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نادر احادیث ہیں جس سے صحاح خمسہ خالی ہیں۔ مختلف احادیث نقل کرتے ہوئے بعض ایسے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ایمان افزاء ہیں۔ جس سے حدیث نبوی سے اس عہد کے مسلمانوں کے تعلق کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً باب ماجاء فیما یستحب من التطوع باالنھار میں حبیب بن ثابت کی روایت نقل کی کہ انہوں نے اس حدیث کے راوی ابواسحق سبیل کو مخاطب کرکے فرمایا:’’ مااحب ان لی بحدیثک ھذا ملاء مسجدک ذھباً ۰‘‘ مجھ کو آپ نے جو حدیث سنائی اس کے بدلہ میں تمہاری مسجد کے برابر بھرا ہوا سونا لینا بھی پسند نہیں کرتا۔
	ماجہ میں پانچ ثلاثی روایات ہیں۔ جبکہ مسلم ونسائی کی عالی روایات رباعیات ہیں۔ جو ابن ماجہ میں بکثرت موجود ہیں۔ ابن ماجہ میں پانچ ثلاثی روایات ایک ہی سند سے مروی ہیں۔ ابن ماجہ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter