Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

24 - 142
تلامذہ کی روایات بھی لائے ہیں۔ امام شافعیؒ کے شاگردوں سے مؤطا کا سماع بھی کیا۔ لیکن امام مالکؒ کی صرف پانچ روایات لائے ہیں اور وہ بھی حضرت امام شافعیؒ کے حوالہ سے۔ 
	امام محمدؒ کے شاگرد ہیں۔ لیکن ان کی صرف دو روایات لائے ہیں۔ امام مسلمؒ‘ امام بخاریؒ کے شاگرد ہیں لیکن مسلم میں ان کے حوالہ سے کوئی روایت نہیں لائے۔ اس لئے اگر امام ابوحنیفہؒ کی کوئی روایت نہیں لائے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک ان آئمہ کی روایات کا چار سو عالم تذکرہ تھا۔ ان کی روایات کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ تھا۔ محدثین وہ روایات لائے جن کو ان کے نزدیک زیادہ جمع کرنے کی بہت زیادہ ضرورت تھی تاکہ وہ محفوظ ہوجائیں۔ لامع الداری میں سو سے زیادہ بخاری کی شرو حات وحواشی اور متعلقات کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت فتح الباری کو ہوئی۔ لامع الداری حضرت گنگوہیؒ کے بخاری شریف کے دروس کے افادات ہیں۔ (لولاک رجب المرجب ۱۴۲۳ھ)
(۷)  …  حضرت امام مسلمؒ
(پیدائش ۲۰۴ھ، وفات ۲۶۱ھ)
	نسب نامہ یہ ہے مسلم بن حجاج بن داؤد بن کوشاد، امام صاحب کی کنیت ابوالحسن ہے۔ عرب خاندان قبیلہ بنی قشیر سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے قشیری بھی کہلاتے ہیں۔ امام مسلمؒ ۲۰۴ھ میں خراسان کے مشہور شہر نیشا پور میں پیدا ہوئے۔ بعض حضرات نے سن پیدائش ۲۰۶ھ بھی تحریر کیا ہے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد سماع حدیث کی طرف ۲۱۸ھ میں متوجہ ہوئے۔ عرب و عجم کی شاید کوئی قابل شخصیت ہو جس سے آپ نے کسب فیض نہ کیا ہو۔ اساتذہ میں امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت امام بخاریؒ اور شاگردوں میں امام ترمذیؒ‘ ابوبکر بن خزیمہؒ‘ اور ابوعوانہؒ جیسے حضرات شامل ہیں۔ امام مسلمؒ  کا مسلک معلوم نہیں ہوسکا۔ اس لئے کہ صحیح مسلم کے ابواب خود مصنف نے مرتب نہیں کئے بلکہ شارح مسلم علامہ نوویؒ کے قائم کردہ ہیں۔ تراجم ابواب سے صاحب کتاب کے مسلک کے متعلق رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ البتہ نواب صدیق حسن خان نے ان کوشافعیؒ لکھا ہے۔ مولانا عبدالرشید نعمانی نے ان کو مالکیؒ لکھا ہے۔ آپ کی وفات کا واقعہ بھی عجائبات میں سے ہے۔ آپ سے کسی نے حدیث شریف پوچھی جواتفاق سے آپ کو یاد نہ تھی۔ گھر آئے تو اس کی تلاش میں منہمک ہو گئے۔ گھروالوں نے کھجور پیش کیں۔ آپ کھجوریں کھاتے رہے اور حدیث شریف تلاش کرتے رہے۔ حدیث کی تلاش میں اتنے منہمک ہوئے کہ بے خبری میں کھجوریں زیادہ کھالیں۔ حدیث تو مل گئی لیکن کھجوروں کا زیادہ استعمال موت کا باعث بن گیا۔ 
	۲۵ رجب ۲۶۱ھ کو یک شنبہ کے دن وفات پائی۔ اگلے روز دوشنبہ کو جنازہ ہوا۔ نیشا پور سے باہر نصیر آباد میں دفن ہوئے۔ تیس سے زائد آپ کی تصنیفات ہیں لیکن جو شہرت صحیح مسلم کو ہوئی۔ اس کی مثال نہیں۔ تین لاکھ صحیح احادیث سے انہوں نے صحیح مسلم کاا نتخاب کیا ہے۔ مکررات کے بعد صحیح مسلم کی روایات کی تعداد چار ہزار بیان کی جاتی ہے۔ سفیان بن ابراہیم جو امام صاحب کے شاگرد ہیں۔ ان کہنا ہے کہ پندرہ سال صحیح مسلم کی ترتیب میں اپنے استاذ ا مام مسلم کے ساتھ شریک رہا۔ ان کے بیان کے مطابق ۲۵۷ھ میں اس کتاب کی قرأت سے فراغت پائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام صاحب اپنی رحلت سے بہت پہلے اس کی ترتیب سے فارغ ہوچکے تھے۔ امام صاحب نے اپنے دور کے تمام مشائخ حدیث کا جن احادیث پر اتفاق تھا۔ ان کوا پنی صحیح میں درج کرنے کا اہتمام کیا۔ جیسا کہ صحیح مسلم باب التشہد میں خود فرماتے ہیں۔ پندرہ سال کی محنت سے کتاب کو مکمل کیا تو اس کی تکمیل پر اتنا اعتماد تھا کہ فرمایا۔ محدثین اب دو سو سال بھی حدیث 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter