Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

22 - 142
(۶)  …  حضرت امام بخاریؒ
(پیدائش ۱۹۴ھ، وفات ۲۵۶ھ)
	حضرت امام بخاریؒ کا سلسلہ نسب یہ ہے۔ محمد بن اسماعیل بن ابراھیم بن مغیرہ بن بردزبہ‘ بردزبہ یہ مجوسی تھے۔ مجوسیت پر ان کا انتقال ہوا۔ امام صاحب کے پردادا مغیرہ خاندان کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے بخارا کے امیر، ایمان جعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اسی نسبت سے امام صاحب جعفی معروف ہوئے۔ ورنہ جعف خاندان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ کے دادا کے زیادہ حالات معلوم نہیں البتہ آپ کے والد جناب اسماعیل بہت بڑے محدث تھے۔ اپنے زمانہ میں محدثین کے طبقہ رابعہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ یہ امام مالکؒ اور حمادؒ کے شاگرد تھے۔ لیکن عبداﷲبن مبارکؒ کی خدمت میں زیادہ رہے۔ امام بخاریؒ۱۳ شوال نماز جمعہ کے بعد۱۹۴ہجری کو پیدا ہوئے۔ بچپن میں نابینا پیدا ہوئے۔ والدہ کی دعائوں سے اﷲ تعالیٰ نے بینائی لوٹادی۔ امام صاحبؒ کے والد کا جب انتقال ہوا امام صاحبؒ کی عمر اس وقت تین سال تھی۔ آپ نے بچپن میں تحصیل علم کا شغل اختیار کیا۔ سولہ سال کی عمر میں حضرت عبداﷲ بن مبارکؒ اور امام وکیعؒ کی کتابوں کو حفظ کرلیا تھا۔ (یہ دونوں حضرت امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد ہیں۔) 
	امام صاحبؒ حج کے لئے حجاز مقدس گئے۔ دوسال مکہ مکرمہ قیام کیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میںنبی کریمﷺ کے روضہ طیبہ کے پاس چاندنی راتوں میں قضایا الصحابۃ والتابعین اور التاریخ الکبیر تصنیف کی۔ حافظ ابن حجرؒ کے بقول امام صاحب کے سفر کا آغاز ۲۱۰ہجری میں ہوا۔ مصر، جزیرہ میں دو بار تحصیل علم کے لئے سفر کیا۔ حجاز مقدس میں چھ سال قیام کیا۔کوفہ وبغداد علماء کا مرکز تھا۔ بصرہ میں چار مرتبہ تشریف لے گئے اور بعض دفعہ پانچ پانچ سال قیام کیا۔ متعدد مرتبہ بغداد بھی گئے۔ ہر مرتبہ امام احمد بن حنبلؒ بغداد کے قیام پر اصرار کرتے تھے۔
	امام صاحبؒ کا قول ہے کہ میں نے اسی ہزار حضرات سے حدیثیں لکھی ہیں۔ اور وہ سب محدث تھے لیکن اسحق بن راہویہؒ اور علی بن مدینیؒ سے زیادہ فیض حاصل کیا۔ امام صاحب سے براہ راست نوے ہزار آدمیوں نے جامع الصحیح البخاری کو سنا تھا۔ امام ترمذیؒ‘ نسائی  ؒ‘ مسلمؒ جیسے صحاح ستہ کے آئمہ آپ کے شاگرد تھے۔ امام صاحبؒ فرماتے تھے کہ مجھے ایک لاکھ صحیح اور دو لاکھ غیر صحیح حدیثیں یاد ہیں اور بخاری شریف کا میں نے چھ لاکھ احادیث سے انتخاب کیا ہے۔ آپ کی ذہانت وحافظہ ضرب المثل تھا۔ ایک بار بغداد تشریف لے گئے۔ بغداد کے علماء نے آپ کے حافظہ کے امتحان کے لئے ایک سو احادیث کے متون اور اسناد کو بدل کر دس دس آدمیوں نے دس دس احادیث پیش کیں۔ سند کسی حدیث کی اور متن کسی اور حدیث کا تھا۔ جب آپ سنتے تھے فوراً فرمادیتے:’’لاادری‘‘ میں نہیں جانتا۔ جب وہ دس دس آدمی سو روایتوں کو سند ومتن کے اخلاط سے سنا چکے اور آپ نے سب کی صحت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو آپ نے ان سو احادیث کے صحیح متن کو صحیح سندوں کے ساتھ سناکر ہجوم خلق کو متحیر کردیا۔ آپ کے علم وفضل کا سب کو لوہا ماننا پڑا۔ 
	امام بخاریؒ کا حافظہ معاصرین کے نزدیک آپ کی کرامت تھا۔ اپنے والد سے بہت ساترکہ پایا۔ لیکن سب اﷲ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہے۔ اور خود بسا اوقات آپ کو دو یا تین بادام پر دن گزارنا پڑا۔ تحصیل علم کے لئے آدم بن ایاسؒ کے ہاں گئے۔ گھر سے رقم آنے میں تاخیر ہوگئی۔ فرماتے ہیں میں نے اس صورت حال کو مخفی رکھا۔ دو دن گھاس کھاکر گزارہ کیا۔ تیسرے دن کسی اجنبی نے دینار کی تھیلی عطیہ وہدیہ کردی۔ یوں اﷲ تعالیٰ نے مشکل حل کردی۔ فرماتے ہیں کہ ہدیہ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter