Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

21 - 142
آتا۔ ارتداد کے موقع پر سیدنا صدیق اکبرؓ اور فتنہ خلق قرآن کے مسئلہ پر حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے دین کی حفاظت کا کام لیا۔
مسند احمد بن حنبل
	دوسری صدی تک علمائ، حدیث و آثار صحابہؓ و تابعینؒ  کو ایک ساتھ لکھتے تھے۔ تیسری صدی کے اوائل میں یہ طریقہ بدل دیاگیا۔ حدیث نبویﷺ کو آثار صحابہؓ سے علیحدہ لکھا گیا پھر مسانید لکھنے کا آغاز ہوا۔ اس دور میں شاید ہی کوئی محدث ہو جس نے مسند نہ تحریر کی۔ جیسے احمد بن حنبلؒ ‘اسحاق بن راہویہؒ‘ عثمان بن ابی شیبہؒ وغیرھم!
	حدیث کی تصنیف کے دو طریقے ہیں یا تو فقہی ابواب پر مرتب کیا گیا جیسے صحاح ستہ۔ یا مسانید کے طریقہ پر تصنیف کیا گیا۔ مسند یعنی ہر صحابیؓ کی تمام روایات کو ایک ساتھ جمع کردیا جاتا ہے مسند میں صحابہؓ کی روایات جمع کرتے ہوئے کبھی حروف تہجی کاا عتبار کیا جاتا ہے۔ کبھی قبائل پر ترتیب دی جاتی ہے۔ کبھی اسلام میں سبقت کا لحاظ ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے علم حدیث کی تحصیل کے زمانہ سے جمع روایات کا سلسلہ ۱۸۰ھ سے ہی شرع کردیاتھا اور آخیر زندگی تک اس میں مشغول رہے۔ ان کا قول ہے کہ میں نے سات لاکھ احادیث سے مسند میں احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ پھر حضرت حافظ ابن کثیرؒ کے بقول دو سو ایسے صحابہؓ کی روایات درج نہیں ہیں جن کی بخاری و مسلم میں روایات منقول ہیں۔
	 امام صاحبؒ اس کی تبویب نہیں کرسکے۔ یہ آپ کے شاگردوں اور آپ کے صاحبزادہ نے کی۔ اس کی ترتیب وتنقیح  سے قبل آپ کا وصال ہو گیا۔ کتاب اسی حال میں رہ گئی۔ حضرت شاہ عبدالعزیزؒ فرماتے ہیں کہ مسند کی موجودہ ترتیب امام صاحبؒ کے صاحبزادہ عبداللہ کی ہے اس میں خامیاں ہیں۔ مدنی صحابہؓ کو شامیوں میں اور شامیوں کو مدنی صحابہؓ میں شمار کیا گیا ہے۔ 
	بعض حضرات نے مسند کی ترتیب قائم کی مگر اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی وہ سب کتب نایاب ہیں۔ بعض حضرات نے اس کا اختصار بھی کیا ہے۔ ابوالحسن بن عبدالہادی ۱۲۳۹ھ نزیل مدینہ منورہ نے اس کی شرح لکھی ہے۔ موجودہ زمانے میں الفتح ا لربانی میں مسند احمد کی شرح اور ابواب پر ترتیب قائم کی گئی ہے۔ احمد بن عبدالرحمن البناء نے یہ خدمت سرانجام دی ہے۔ مسند میں تقریباً سات سو صحابہ کرامؓ کی روایات ہیں۔ اس میں روایات کی تعداد تین ہزار بتائی جاتی ہے۔ آپ کے صاحبزادہ عبداللہ کی زوائد کو شمار کیا جائے تو اس کی تعداد چالیس ہزار بیان کی جاتی ہے۔ اس تعداد میں مکر رات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ دیگر مسانید سے مسند احمد کو صحیح تر کہا گیا ہے۔ اس میں تین سو ثلاثیات ہیں۔ حافظ شمس الدین جزریؒ کے بقول کوئی حدیث غالباً ایسی نہیں جس کی اصل اس مسند میں نہ ہو۔ واللہ اعلم!
	 بعض حضرات نے اس میں ۳۸ موضوع روایات کا ذکر کیا ہے۔ مگر علامہ سیوطی نے التعقبات علی الموضوعات میں اس کا جواب دیا ہے۔ البتہ امام صاحب کے صاحبزادہ کے زوائد میں ضعیف وموضوع سب شامل ہیں۔ 
	حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اصل مسند میں کوئی موضوع روایت نہیں۔ سوائے تین چار روایتوں کے، مگر ممکن ہے کہ امام صاحب نے ان کو کاٹ دینے کی وصیت کی ہو مگر وہ سہواً رہ گئی ہوں۔ بہرحال اصل کتاب سے ان کا تعلق نہیں ہے۔ (لولاک شوال المکرم۱۴۲۳ھ)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter