Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

18 - 142
لیکن آپ سے انہوں نے بھی روایت کی ہے۔ امام محمد‘ امام شافعی‘ ابویوسف جیسے آئمہ ہدیٰ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ فقہ اربعہ میں قدر مشترک اور اصل حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ کے اجماعی مسائل ہیں۔ پھر فقہائے مدینہ جیسے ابن عمرؓ‘ حضرت عائشہؓ اور تابعین مدینہ سے فقہائے سبعہ اور صغار تابعین سے امام زہریؒ اور ان جیسے حضرات پر حضرت امام مالکؒ کی فقہ کا اعتماد ہے۔ مدینہ کے فقہائے سبعہ یہ حضرات ہیں:
	(۱)…… حضرت سعید بن مسیب المتوفی ۹۴ ھ (۲)…… عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود المتوفی ۹۸ھ (۳)…… عروہ المتوفی ۹۴ھ (۴)…… قاسم بن محمد بن ابی بکر المتوفی ۱۰۸ھ (۵)…… ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام المتوفی ۹۴ھ (۶)…… سلیمان یسارالمتوفی ۱۰۹ھ(۷)…… خارجہ بن زیدالمتوفی ۱۰۹ھ
	امام مالکؒ کے بارہ میں امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ جب حدیث آئے تو مالک مستحق ہیں۔ عبدالرحمن بن بعدی کا قول ہے کہ روئے زمین پر امام مالک سے بڑھ کر حدیث نبویﷺ کا اور کوئی امانت دار نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ سے کسی نے سوال کیا کہ حدیث یاد کرنی ہو تو کس کی کریں۔ فرمایا امام مالکؒ کی۔ امام صاحب کو مدینہ طیبہ سے غایت درجہ کی محبت تھی۔ بجز ضروری سفر کے کبھی مدینہ طیبہ سے باہر نہیں نکلے۔ ہارون الرشید نے چاہا کہ مؤطا کو خانہ کعبہ میں آویزاں کیا جائے اور تمام مسلمانوں کو فقہی احکام میں ا س کی پیروی کا پابند کیا جائے۔ اگر کوئی شہرت پسند ہوتا تو اس کیلئے اس سے بڑھ کر شہرت حاصل کرنے کا اور کون سا بڑا موقع ہوسکتا تھا؟۔ لیکن امام صاحب کی اخلاص کی بلندی کو دیکھئے۔ فرمایا: ’’ایسا نہ کرو خود صحابہ کرام فروع میں مختلف ہیںا ور وہ ممالک میں پھیل چکے ہیں اور ان میں ہر شخص راہ صواب پر تھا۔ مدینہ منورہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مکان پر کرایہ دیکر عمر بھر رہے۔ اپنا ذاتی مکان نہیں بنایا۔ مسجد نبویﷺ میں حضرت عمرؓ کی نشست گاہ پر نشست کرتے۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں اعتکاف کے لئے آپؐ کا بستر مبارک لگایا جاتا تھا۔اور ذوالنفس ذکیہؒ نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی ابراہیمؒ نے بصرہ میں جب سادات پر منصور کی زیادتیوں کے خلاف بغاوت کی تو امام صاحب نے ان کا ساتھ دیا۔ اس جرم میں والی مدینہ جعفر بن سلیمان نے آپ کو قید اور ستر کوڑوں کی سزا دی۔ تمام پشت خون آلود ہوگئی اور دونوں بازو کندھوں سے نکل گئے۔ اونٹ پر بٹھا کر شہر میں منادی کرائی۔ آپ فرماتے جاتے تھے جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں۔ فتوی دیتا ہوں کہ جبری طلاق درست نہیں۔ ۱۴۶ھ میں جب منصور حرمین میں حاضر ہوا اور والی مدینہ جعفر بن سلیمان کی امام صاحب سے زیادتی کا علم ہوا تو قصاص لینا چاہا۔ لیکن امام صاحب نے منع کردیا اور فرمایا کہ جب کوڑا پڑتا تھا اس وقت میں جعفر کو قرابت رسولﷺ کے باعث معاف کردیتا تھا۔ آپ نے چھیاسی سال کی عمر پائی۔ ۱۱ربیع الاول ۱۷۹ھ میں انتقال فرمایا۔ جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
	مئوطا: یہ کتب خانۂ اسلام کی وہ پہلی کتاب ہے جو قرآن مجید کے بعد باضابطہ سب سے پہلے (فقہی ابواب کی ترتیب پر) لکھی گئی۔ مؤطا کا لغوی معنی‘ روندا ہوا‘ تیار کیا ہوا‘ نرم اور سہل بنایا ہوا‘ تمام معانی بطور استعارہ کے مراد لئے جاسکتے ہیں۔ ابو حاتم مرازی فرماتے ہیں امام مالک نے مؤطا مرتب کرکے لوگوں کے لئے سہل و آسان بنادیا ہے۔ بعض حضرات نے صحاح ستہ میں اس کا مقام ترمذی کے بعد بیان کیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ صحیحین کے بعد اس کا درجہ ہے۔ حافظ ا بوزرعہ راضی بیان کرتے ہیں کہ کوئی شخص طلاق پر قسم کھائے کہ مؤطا میں امام مالک نے جو حدیثیں بیان کیں ہیں صحیح ہیں تو وہ حانث نہیں ہوگا۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter