Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

17 - 142
خاندان ممتاز علمی گھرانہ تھا۔ مدینتہ الرسول علم و فضل کا معدن تھا۔ امام مالکؒ کے زمانہ تک مدینہ طیبہ کی فضا علم و دین کے اعتبار سے نکتہ عروج پر تھی۔ چنانچہ امام مالکؒ کو یہاں کے علماء پر اتنا اعتماد تھا۔ ان کے نزدیک عمل اہل مدینہ مستقل حجت ہے۔
	حضرت امام صاحبؒ نے مدینتہ المنورہ کے امام القراء حضرت نافع بن عبدالرحمن سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی۔ جن کی قرأت پر آج دنیائے اسلام کی بنیاد ہے۔ آپ  نے قرات کی تعلیم بالکل بچپنے میں حاصل کی۔ آپ کے استاذ حضرت نافع امام القراء ہیں۔ یہ حضرت ابن عمرؓ کے غلام تھے اور حضرت ابن عمرؓ جلیل القدر صحابی رسول اور حدیث و روایت کے استاذ وشیخ تھے۔ نافعؒ نے حضرت ابن عمرؓ کی کامل تیس برس خدمت کی۔ حضرت نافعؒ نے دیگر صحابہ کرامؓ سے بھی روایت کی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے حضرت نافع کو اہل مصر کا معلم بنا کر بھیجا تھا۔ ان کی وفات ۱۱۷ ھ ہے۔ محدثین اس روایت کو جو مالک عن نافع عن ابن عمرؓ کی سند سے ہو سلسلتہ الذہب (سونے کی لڑی) شمار کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے حضرت امام مالکؒ تبع تابعین سے شمار ہوتے ہیں۔ امام مالکؒ نے مؤطا میں جن شیوخ سے روایت کی ہے۔ ان کی تعداد پچانوے ہے۔ اور یہ سب حضرات مدنی ہیں۔ ان کے شیوخ میں صرف چھ حضرات غیر مدنی ہیں۔ یہ صرف مؤطا کے شیوخ کی تعداد ہے۔ ورنہ علامہ زرقانی نے ۹ سو سے زائد آپ کے شیوخ کی تعداد بتائی۔ غرض مدینہ طیبہ کے وہ تمام علوم جو مختلف سینوں میں تھے۔ ان سب کو قدرت نے امام مالکؒ کے سینہ میں مجتمع فرمادیا۔ آپ کے شیوخ کی جلالت شان کا اس سے اندازہ فرمائیے کہ امام احمد بن حنبلؒ سے کسی راوی کی نسبت سوال کیا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ میرے نزدیک صحیح ہے۔ اس لئے کہ ان سے امام مالکؒ نے روایت کی ہے۔ مؤطا میں سیدنا علیؓ اور سیدنا ابن عباسؓ کی روایات کم ہیں۔ ہارون الرشید کے سوال پر امام مالکؒ نے فرمایا یہ دونوں بزرگ میرے شہر میں نہ تھے اور میری ا ن کے اصحاب سے بھی ملاقات نہ ہوسکی۔ اسی طرح حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایات ان حضرات سے بھی کم مؤطا میں ہیں۔ اس لئے یہ حضرات اور ان کے اکثر اصحاب امام مالکؒ کے زمانہ میں کوفہ جاچکے تھے۔ مدینہ منورہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی درس گاہ پر حضرت نافع  ؒ جانشین ہوئے تو کم ا ز کم بارہ برس حضرت امام مالکؒ نے ان سے استفادہ کیا۔ پھر حضرت نافع  ؒ کی وفات کے بعد امام مالکؒ اس درس گاہ کے صدر نشین ہوئے۔ جب حدیث شریف کے املاء کرانے کا وقت آتا۔ غسل کرکے عمدہ لباس زیب تن کرتے۔ خوشبو لگاتے اور اس اہتمام کے بعد مجلس علمی کی صدارت کیلئے باہر تشریف لاتے۔ پوری دنیا ئے اسلام میں امام صاحب کی شہرت کا چرچا ہوا۔ افریقہ‘ یورپ اور ایشیاء کے مسافران علم نے آپ سے استفادہ کیا۔
	 آنحضرتﷺ نے فرمایا:’’ عن ابی ھریرۃؓ عن النبیﷺ یوشک ان یضرب ا لناس اکبادالابل یطلبون العلم فلا یجدون احدا اعلم من عالم المدینۃ۰‘‘ (ترمذی ج۲ ص ۹۳، باب ماجاء فی عالم المدنیۃ) 
	آپﷺ نے فرمایا عنقریب وہ زمانہ آئے گا جب لوگ طلب علم کیلئے اونٹ ہنگائیں گے۔ لیکن مدینہ کے عالم سے زیادہ وہ کسی کو نہ پائیں گے۔ سفیان بن عینیہؒ اور عبدالرزاق  ؒ نے آپﷺ کی اس پیشگوئی کا مصداق حضرت امام مالکؒ کو قرار دیا ہے جو بالکل صحیح ہے۔ 
	حافظ امام ذہبیؒ نے آپ کے شاگردوں کی تعداد کی شمار ناممکن لکھی ہے۔ امام مالکؒ نے باسٹھ سال درس وتدریس‘ فقہ و فتاویٰ اور تدوین حدیث سے اپنی مسند علمی کو چار چاند لگائے رکھے۔ بعض حضرات نے آپ سے روایت کرنے والوں کی تعداد تیرہ سو سے زائد بیان کی۔ امام زہری‘ شیخ ابوالاسود‘ ایوب سختیانی‘ ربیعۃ المرانی‘ یحی بن سعید انصاری‘ امام صاحب کے شیوخ میں شامل ہیں۔ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter