Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

15 - 142
	صحابہ کرامؓ میں سے ایک ہزار پچاس حضرات نے کوفہ میں سکونت اختیار فرمائی جن میں سے چوبیس بدری صحابہؓ بھی تھے۔ بعض حضرات نے کوفہ میں ڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ کے تشریف لانے کا ذکر فرمایا ہے۔ علامہ نوویؒ نے کوفہ کو دارالفضل والفضلاء کا لقب دیا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ بیس سال کی عمر میں تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوئے۔ ادب، انساب، علم کلام کے حصول کے بعد فقہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس زمانہ میں کوفہ میں فقیہہ وقت حضرت امام حمادؒ تھے۔ حضرت حمادؒ مشہور امام وقت تھے بڑے بڑے تابعینؒ سے آپ نے استفادہ کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے حدیث و فقہ کاجو سلسلہ کوفہ میں قائم ہوا تھا۔ اس کا مدار اپنے وقت میں حضرت حمادؒ پر رہ گیا تھا۔ حضرت حمادؒ کا سن وصال ۱۲۰ہجری ہے۔ حضرت حمادؒ اور ان کے علاوہ کوفہ میں کوئی ایسا محدث و فقیہہ نہ تھا۔ جن سے حضرت امام ابوحنیفہؒ نے استفادہ نہ کیا ہو۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلویؒ نے امام صاحب کے شیوخ کی تعداد چار ہزار تحریر کی ہے۔ حضرت علامہ سیوطیؒ نے بہت سے آپ کے شیوخ و اساتذہ کا ذکر کیا ہے۔ مولانا عبدالحیؒ نے بھی آپ کے شیوخ کا تعارف کرایا ہے۔ علامہ شعرانی  ؒ فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے جس حدیث سے استدلال کیا اس کو خیار تابعینؒ سے حاصل کیا تھا۔ ان کے رواۃ میں کوئی متہم بالکذب نہیں۔ امام صاحب کے مسلک کے دلائل میں ضعف ما بعد کے رواۃ میں تو ممکن ہے۔ امام صاحب تک کوئی ضعف نہیں۔ آپ نے حرمین شریفین کا سفر بھی کیا اور استفادہ علم بھی۔ آپ کا چھ سال تک مکہ مکرمہ میں مستقل قیام رہا۔ بیس مرتبہ سے زائد بصرہ کا سفر کیا۔ مکہ‘ مدینہ‘ کوفہ‘ بصرہ غرض عراق و حجاز دونوں جگہ سے روایات کو آپ نے حاصل کیا۔ آپ کے تلامذہ کا شمار مشکل بلکہ بہت مشکل ہے۔ علامہ کروریؒ نے آپ کے تلامذہ کی تعداد آٹھ ہزار سے اوپر بیان فرمائی ہے۔ فقہاء میں آپ کے شاگرد امام ابو یوسفؒ‘ امام محمدؒ‘ امام زفر  ؒ‘ امام حسن بن زیادؒ، اور محدثین سے آپ کے شاگرد حضرت عبداللہ بن مبارکؒ لیث بن سعدؒ، امام مالکؒ اور سعد بن کدامؒ، صوفیاء سے آپ کے شاگرد فضیل بن عیاضؒ، داؤد طائی ؒ رحہم اللہ تعالی اجمعین مشہور و معروف ہیں۔ آپ کے شاگردوں میں سے چالیس حضرات پر مشتمل ایک کونسل تھی جو نئے مسائل پر بحث کے بعد جس پر اتفاق ہوجاتا تھا۔ وہ مسئلہ ضبط تحریر میں آجاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ کوفہ میں آکر میں نے دریافت کیا کہ یہاں سب سے بڑا پارسا کون سا ہے؟۔ تو مجھے حضرت امام ابو حنیفہؒ کا نام بتایا گیا اور میں نے ان کو ایسا پایا جیسا سنا تھا۔
	بخاری‘ مسلم کی حضرت ابوہریرہؓ اور طبرانی و احمد کی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ لوکان العلم باالثر یالتنا ولہ اناس من ابناء فارس۰‘‘ اگر علم ثریا کے پاس ہوتو فارس کے کچھ لوگ اس کو حاصل کرلیں گے۔ علامہ سیوطیؒ اور ابن حجرؒ نے آپﷺ کی اس پیشگوئی کا مصداق اولین حضرت امام ابوحنیفہؒ کو قرار دیا ہے۔
	علامہ ذہبی فرماتے ہیں:’’ کان من اذکیاء بنی آدم۰‘‘  یعنی امام صاحب اولاد آدم کے ذکی وذہین لوگوں میں سے تھے۔ حضرت امام وکیعؒ فرماتے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ سے بڑھ کر کسی فقیہہ سے میری ملاقات نہیں ہوئی۔
عہد صحابہ کرامؓ اور امام صاحب
	امام صاحب کے آغاز شباب تک کئی صحابہ کرامؓ زندہ تھے۔ حضرت انس بن مالکؓ نے ۹۳ ہجری میں وفات پائی۔ حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہؓ نے ۱۰۲ھ میں اور عبداللہ بن بسرؓالمازنی نے ۹۶ہجری میں وفات پائی۔ محدثین و محققین کے نزدیک حضرت امام صاحب نے متعدد حضرات صحابہ کرامؓ سے متعدد بار شرف زیارت حاصل کیا۔ لہذا آپ کا تابعی ہونا مسلم ہے۔ علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ امام صاحبؒ نے حضرت انس بن مالکؓ کو بار بار دیکھا ہے۔ حضرت حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ آپ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter