Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

115 - 142
	حضرت مولانا فیض احمد نے پہلے مکتبہ امدادیہ پھر مکتبہ حقانیہ سے درجنوں نایاب کتب کو اعلیٰ درجہ پر شائع کر کے انہیں زندہ جاوید کیا۔ جو آپ کے لئے یقینا ذخیرہ آخرت ہے۔ یوں تو ان کی زندگی کا ہر لمحہ آخرت کا ذخیرہ ہے۔ خود بھی درجنوں کتابوں کے مصنف تھے۔
	 آخری عمر میں بیماری نے گھیر لیا۔ تو ان کا وجود سراپا نور بن گیا۔ ان کی غذاء صرف یاد الٰہی ہی رہ گئی۔ حدیث شریف میں ہے کہ آخری زمانہ کے لوگ دجال کے فتنہ کے دور میں صرف ذکر الٰہی پر زندگی بسر کریںگے۔ ان کی زندگی بغیر مادی خوراک کے بسر ہوگی؟۔ اس کا نمونہ مولانا کی ذات میں دیکھنے والوں نے دیکھا۔ یومیہ ایک آدھ چمچ آب زم زم، چند گھونٹ سیال خوراک پر کئی ماہ تک انہوں نے اپنی زندگی گذار کر دکھائی۔ اس حالت میں قلب وجگر کی دنیا یاد الٰہی سے آباد، چہرہ ایسا روشن اور اجلا کہ ہزاروں حسن اس پر قربان، اس حالت میں صاحب دل حضرات کا کہنا تھا کہ وہ تیز رفتار لفٹ پر سوار قرب الٰہی کی منزلوں کو بڑی سرعت سے طے کر رہے ہیں۔
	رمضان المبارک اﷲ رب العزت کا مہمان ماہ مبارک، اس میں ان کی وفات، علمائ، طلباء کی جنازہ میں شرکت، جنازہ ایسا جو جنازہ پڑھنے والوں کے لئے بھی باعث مغفرت۔ زہے نصیب! حق تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں۔ آمین! (لولاک ذیقعدہ ۱۴۲۹ھ)
(۴۸)  …  قاری محمد اسماعیل شہیدؒ
(وفات ۴؍نومبر ۲۰۰۸ئ)
	ضلع خوشاب کے ایک معروف اور قدیمی قصبہ گنجیال میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں بنین وبنات کے دو مدرسے اپنے اخلاص کی دولت سے چلانے والے قاری محمد اسماعیل شہیدؒ ۴؍نومبر ۲۰۰۸ء بروز منگل ساڑھے سات بجے شب، سول لائن جوہر آباد میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر کے سفر آخرت کو سدھار گئے۔ برلب سڑک اس فرزند اسلام کے سینے پر گولیاں برسا کر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ انا لللّٰہ وانا الیہ راجعون!ان کی ساری زندگی خدمت دین، خدمت قرآن کریم اور خدمت علماء واکابر سے مزین تھی۔ وہ قرآن کے نور سے اپنے علاقہ کو منور کر دینا چاہتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل جب قائد آباد میں تحصیل سطح پر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا یونٹ عمل میں لایاگیا تو انہیں وہاں کے لئے بحیثیت امیر چناگیا۔ اس سے پہلے وہ جمعیت علماء اسلام کے لئے کام کرتے رہے۔ وہ بے لوث محنت کے خوگر تھے۔ انتہائی ملنسار اور خوش مزاج تھے۔ کسی سے کوئی منافرت نہ رکھتے تھے۔ گوکہ اسباب کی فراوانی انہیں حاصل نہ تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنی تدریسی خدمات کو بام عروج پہ پہنچانا چاہتے تھے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے محل نہ ہوگا کہ یہ خانقاہ سراجیہ اور خواجۂ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم کا فیض ہی تھا جو انہیں خدمت دین کے لئے توفیق ایزدی سے اڑائے پھرتا تھا۔ جس روز انہیں شہید کیاگیا اس روز بھی وہ خانقاہ سراجیہ سے ہوکر آئے تھے۔موت وحیات کا خالق انہیں وہاں سے جائے اجل پر لے کر آیا تھا۔ جنازے کے وقت علاقہ بھر کے علماء ومشائخ اور عوام کا جم غفیرہ دیکھنے میں آیا۔ حتیٰ کہ عورتیں بھی اپنے گھروں سے نکل کر جنازہ گاہ کے اردگرد جمع ہوگئیں۔
	بعد ازاں خانقاہ سراجیہ میں مشاورت سے طے پانے کے بعد ۱۶؍نومبر ۲۰۰۸ء کو قصبہ گنجیال میں ایک تعزیتی جلسہ قاری محمد اسماعیل شہید کی یاد میں کیا گیا۔ جس میں سرگودھا، خوشاب اور میانوالی تینوں اضلاع سے علماء کرام بکثرت تشریف لائے۔ صاحبزادہ خلیل احمد صاحب نے جلسہ کی صدارت کی اور صاحبزادہ صاحب رفقاء کی مشاورت سے اس مدرسہ کے باقاعدہ سرپرست مقرر ہوئے۔ شہید کے بیٹے جو زیر تعلیم ہیں مہتمم قرار پائے۔ فراغت کے بعد یہ ذمہ داری انہیں سونپ دی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter