Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

114 - 142
عبدالرحمن کا مل پوریؒ، مولانا کمال الدینؒ سے پڑھا۔ آپ نے ۲۷سال سے زائد عرصہ جامعہ قاسم العلوم ملتان میں حدیث شریف کی تعلیم دی۔ خیر المدارس میں اعلیٰ درجہ کی کتب پڑھاتے رہے۔ مولانا عزیز الرحمن جالندھری مدظلہ، قاری محمد طاہر مدنیؒ، مولانا سید عطاء المحسنؒ ایسے ہزاروں نابغہ روزگار شخصیات آپ کی شاگرد ہیں۔
	مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے بعد آپ جامعہ قاسم العلوم ملتان کے مہتمم بھی رہے۔ میری معلومات کے مطابق زندگی بھر کبھی تدریس واہتمام کی تنخواہ نہیں لی۔ رزق حلال اپنے قائم کردہ مکتبہ امدادیہ سے کماتے۔ جامعہ قاسم العلوم ملتان ان کے اہتمام کا زمانہ قاسم العلوم کی تاریخ کا بہترین دور قرار دیا جاسکتا ہے۔ بعض شوری کے دنیادار اراکین ناقدروں کے رویہ سے دلبرداشتہ ہوئے تو خیر المدارس اپنی مادر علمی کی خدمت کو معمول بنالیا۔ اﷲ رب العزت کے ایک محبوب بندے کی ناقدری پر قاسم العلوم کے درودیوار پر آج بھی اداسی چھائی ہوئی ہے۔ اﷲتعالیٰ اس کی رونقیں بحال فرمائیں۔
	 مفتی محمد شفیع ملتانیؒ، مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ، مولانا فیض احمدؒ جیسا اہتمام تو ہزار کوشش کے باوجود ملنے کی توقع بھی عبث ہے۔ پردۂ غیب سے اﷲ رب العزت حضرت مولانا محمد اکبر شیخ الحدیث کو اس گرداب سے جامعہ کو نکالنے کی توفیق دے دیں تو۔ وما ذالک علی اﷲ بعزیز!
	حضرت مولانا فیض احمد صاحبؒ نے ۱۹۷۰ء کا الیکشن اپنے حلقہ میلسی سے لڑا تو ستر ہزار ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی۔ پہلی اور آخری بار اس وادی میں قدم رکھا۔ پھر اس سے کنارہ کشی کی تو مڑ کر دوبارہ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ وہ اس ملک میں اسلامی نظام کے لئے جمعیت علماء اسلام کے بھرپور حامی تھے۔ آپ وفاق المدارس کی شوریٰ کے رکن بھی رہے اور ایک عرصہ تک مرکزی خازن کی ذمہ داری بھی نبھائی۔
	مولانا فیض احمد صاحبؒ کو علوم وہبی عطا ہوئے تھے۔ حدیث وفقہ پر بھرپور دسترس حاصل تھی۔ ویسے تو جو بھی آپ نے کتاب پڑھائی تو ایسے محسوس ہوتا تھا کہ کتاب کے مصنف کی روح ان میں بول رہی ہے۔ یہ سب کچھ ان کی نیکی کے اثرات تھے۔ وہ چلتے پھرتے علم وعمل کا وقار وبھرم تھے۔ ان کو دیکھ کر اسلاف کی عظمتوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگ جاتا۔ ان کے وضو کے پانی سے فرشتے غسل کریں۔ اگر مثال صحیح ہے تو وہ اس کے مصداق تھے۔ وہ جامع المعقول والمنقول تھے۔ کریما سے بخاری ومسلم تک کی آپ نے تعلیم دی۔ 
	عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اکابر کی عظمتوں کے معترف تھے۔ مجلس سے انہیں دلی محبت تھی۔ وہ مجلس کی مرکزی شوریٰ کے ممبر بھی آخری سانس تک رہے،۔ بیماری کے باوجود کبھی کسی اجلاس سے غیر حاضر نہیں ہوئے۔ حتیٰ کہ کمر کی ہڈی کے عارضہ کے باعث کرسی پر یا پھر ان کے لئے جگہ بنادی جاتی، لیٹ کر بھی اجلاس میں شریک رہتے۔ یہ مجلس سے ان کی کمال محبت کی دلیل تھی۔
	 علماء کے حلقہ سے ملتان سے موجودہ شوریٰ کے وہ واحد ممبر تھے۔ مشکل سے مشکل امر کے لئے قریب پاکر مرکزی ناظم اعلیٰ ان سے رہنمائی کے لئے گاہے بگاہے حاضر ہوتے تو جھولی بھر کر واپس تشریف لاتے۔ اب تو ان کی شفقتوں، محبتوں اور بالغ نظری کے تذکرے ہی رہ گئے ہیں۔ اﷲ رب العزت انہیں ان کی حسنات کا بہتر سے بہتر بدلہ نصیب فرمائیں۔ آمین!
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter