Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

111 - 142
کے ایک کامیاب خطیب اور مؤثر مقرر سے ہم محروم ہوگئے۔ حق تعالیٰ آپ کی تربت پر اپنی رحمتوں کی موسلادھار بارش فرمائیں۔ ذاتی طور پر مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک خادم ہونے کے ناطہ میں راقم سے بہت ہی اکرام ومحبت کا معاملہ فرماتے۔ ڈھارس بندھادیتے۔ تقریر پر خوشی سے جھوم جھوم جاتے اور اصلاح بھی فرماتے۔ راقم نے قرآن مجید ناظرہ بچپن میں ایک عورت سے پڑھا۔ خود جاہل ہوں مجہول کیا۔ اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے۔ پتہ نہیں صحیح بھی پڑھتا ہوں کہ نہیں۔ ایک بار علیحدگی میں فرمایا کہ آپ کو کوئی نہیں کہے گا۔ یہ ناخوشگوار فریضہ میں سرانجام دیتا ہوں۔ زبر کی بجائے زیر ہے۔ اس سے ان کی محبت واخلاص وسرپرستی کا پتہ چلتا ہے کہ وہ زیر وزبر تک مجھ مسکین پر نظر رکھتے تھے۔
	ایک بار بیان میں راقم نے عرض کیا کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہاں دفن ہوتا ہے۔ مرزا قادیانی کو پاخانہ کی جگہ موت کے باعث وہاں دفن ہونا چاہئے تھا تو تقریر کے بعد فرمایا کہ آپ نے جو بیان کیا یہ حضرت صدیق اکبرؓ کی روایت ہے کہ انہوں نے آپﷺ کی تدفین کے موقع پر فرمایا کہ میں نے آپﷺ سے سنا ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہاں دفن ہوتا ہے۔ لیکن مشکوٰۃ شریف میں دوسری روایت میں اور بھی وضاحت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو جہاں اپنے نبی کا دفن ہونا مطلوب ہوتا ہے وہاں اپنے نبی کی وفات واقع فرماتے ہیں۔ فقیر نے سنا تو جھوم اٹھا۔ شکریہ ادا کیا۔ لیکن اپنی لاابالی کے باعث ایک بار پھر بیان کیا تو صرف پہلی روایت بیان کی۔ مولانا عبدالمجید انورؒ اب دوسری بار کے بیان میں بھی موجود تھے۔ تو پھر علیحدگی میں فرمایا کہ پچھلے سال بھی ایک روایت مشکوٰۃ کی سنائی تھی۔ اس میں موقف زیادہ اجاگر ہوتا ہے۔ آپ نے آج پھر اسے بیان نہیں کیا۔ غرض سبق کیا دیتے تھے سنتے بھی تھے اور یاد بھی کرادیتے تھے۔ اس کے بعد تو موقعہ کی مناسبت سے کبھی اس روایت کو بھول نہیں پایا۔ ان کی وفات مجلس تحفظ ختم نبوت کے دلی بہی خواہ کی وفات ہے۔
	حضرت مولانا عبدالمجید انورؒ کھلا گول چہرہ، خوبصورت داڑھی، رنگت سانولی، کشادہ پیشانی، بھاری سر، چوڑا سینہ، صحت کے زمانہ میں خوب سڈول مائل بہ فربہی ڈیل ڈول اور درمیانہ قد کے تھے۔ سرپر ہمیشہ تھانویؒ وضع کی ٹوپی رکھتے تھے۔ کندھے پر رومال۔ لباس سادہ کھلا اور اجلا۔ جو ملا پہن لیا۔ لباس میں رنگت وغیرہ کے دل دادہ نہ تھے۔ چلنے میں وقار کی پھرتی۔ معاملہ فہمی کے ماہراور دوستی دشمنی کے جھمیلوں میں نہ پڑنے والے تھے۔ کبھی کھبار ذائقہ بدلنے کے لئے جو داڑھ کے نیچے آگیا، رگڑا اور چل دئیے کا معاملہ ہوگیا ہوتو اﷲتعالیٰ معاف فرمادیں۔ بہت ہی صالح اور عبادت گزار تھے۔ پاکستان آتے جاتے عمرہ یا حج کا سفر ضرور کرتے۔ اس لئے حج وعمرہ کا شمار تو وہ خود یا اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں جن کی رضا کے لئے وہ کرتے تھے اجر بھی اسی ذات نے دینا ہے۔
	پہلے ذکر کیا ہے کہ وفات کی خبر کراچی سنی۔ مولانا قاضی احسان احمد صاحب سے کاغذقلم مانگا۔ لیکن مضمون نہ لکھ سکا۔ آج ۲۳جون ہے۔ ایک دو دن میں رچڈیل مسجد جانا ہے۔ مضمون دفترلندن میں لکھ رہا ہوں۔ تعزیت ان کے نمازیوں سے جاکر عرض کروں گا۔  لندن میں مغرب کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ پاکستان میں زرداری ٹائم رات کے دو بج گئے۔ اسی پر ختم کرتا ہوں۔ اﷲ کافی وبس۔ باقی سب ہوس۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون!
	محسنوں کی وفات سے دل ودماغ پر کیا بیتتی ہے اس سے ہر ذی عقل انسان واقف ہے۔ راقم مزید کیا مرثیہ خوانی کرے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور سیأت سے درگزر فرمائے۔ مولانا مرحوم نے بیماری کے باوجود عمرہ کیا۔ پاکستان گئے۔ واپسی پر برطانیہ کے لئے سیٹ بک تھی۔ بیماری نے شدت اختیار کی تو سیٹ کینسل کرادی۔ اپنے گھر ساہیوال میں کچھ دن زیر علاج رہے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter