Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

110 - 142
عزیزداری بھی تھی۔ انہوں نے برطانیہ دورہ کی دعوت دی۔ آپ نے برطانیہ کے دور دراز شہروں کا دورہ کیا۔ ہر جگہ اپنی دل پذیر خطابت کا سکہ منوایا۔ ہر جگہ عزت کی نظر سے دیکھے گئے۔ برطانیہ کے اہم شہر رچڈیل میں ادارہ تعلیم الاسلام کی جامع مسجد اور دارالعلوم کی تعمیر نو کا مرحلہ شروع تھا۔ یہ جامع مسجد برطانیہ کی اہم خوبصورت ووسیع ودیدہ زیب مساجد میں شامل ہے۔ جامع مسجد کی خطابت اور دارالعلوم کی تدریس کے لئے ہر لحاظ سے مولانا عبدالمجید انورؒ موزوں کیا۔ قدرت کا تحفہ تھے۔ انتظامیہ نے درخواست کی تو آپ مان گئے۔ اس طرح مستقل برطانیہ میں منتقل ہوگئے۔ لیکن اہل وعیال کو پاکستان رکھنے اور برطانیہ منتقل نہ کرنے کے فیصلہ پر سختی سے کاربند رہے۔
	جمعیت علمائے برطانیہ نے گوہر نایاب سمجھ کر انہیں اپنا سرپرست مقرر کرلیا۔ رچڈیل میں آپ نے تدریس کا آغاز کیا۔ بھرپور پذیرائی ملی۔ لیکن جوبن برقرار نہ رہ سکا۔ انتظامی مسائل سے نڈھال ہوگیا۔ البتہ مسجد کی خطابت کا شہرہ رہا اور خوب رہا۔
	پاکستان کے موسم میں گردوغبار کی شاہی ہے تو برطانیہ میں نمی کا راج۔ پاکستان میں بھرپور شور وشغف تو برطانیہ میں خاموشی وتنہائی۔ غرض موسم وماحول دونوں یکسر بدلے تو جند وجان نے اس تبدیلی کو خوشدلی سے قبول نہ کیا۔ پہلے جگر نے بغاوت کی تو اب دل نے بھی ہتھیار ڈال دئیے۔ ان دونوں کا اس میں کیا قصور خود مولانا نے بھی اس تبدیلی کو بہت زیادہ محسوس کیا۔ خوب یاد ہے کہ راقم ایک بار آپ کا ہمراہی تھا۔ رچڈیل کی مسجد دوسڑکوں کے درمیان ڈھلوان میں واقع ہے۔ سڑکوں پر آنے کے لئے سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔سیڑھیوں سے سڑک پر آئے تو یک دم خوب صحت مند، چوڑے چکلے سینہ کے ابھار والی خاتون کا سامنا ہوا۔ نظریں جھکائیں۔ استغفار پڑھا اور بے ساختہ ’’لقد صدق شیخ الدھیانوی‘‘ کہا اور دل گرفتہ ہوگئے۔ راقم نے آپ کا ہاتھ سہارا دینے کے لئے پکڑا ہوا تھا تو میرے ہاتھ کو دبایا اور فرمایا کہ حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ میرے جامعہ رشیدیہ کے زمانہ کے ساتھی اور قدردان تھے۔ میں برطانیہ منتقل ہوا تو حضرت لدھیانویؒ نے ایک بار فرمایا کہ آپ کے اس فیصلہ پر مجھے شرح صدر نہیں۔ آپ ضائع ہوجائیں گے۔ جو خدمت دین کے مواقع پاکستان میں حاصل تھے وہ یہاں کہاں نصیب۔ حضرت لدھیانویؒ کا یہ قول نقل کرکے مولانا عبدالمجید انورؒ نے فرمایا کہ مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ حکیم العصر تھے۔ میری طبیعت ومزاج کی رعایت کی۔ دراصل انہیں فرمانا چاہئے تھا کہ کس گناہ کی سزا میں برطانیہ آگئے ہو۔ نہ یہاں پڑھنا پڑھانا، نہ علمی مجالس، نہ دینی کاموں کا ماحول۔ کہاں وہ دوستوں کا جھرمٹ اور شاگردوں کی فوج اور کہاں یہ اجنبیت وپراگندئی ماحول۔ پھنسا ہوں اور بہت بری طرح پھنسا ہوں۔فرقۃ الاحباب وفرقۃ الشباب سے نڈھال ہوں۔ اب بیماریوں نے گھیر لیا ہے۔ یہاں علاج ومعالجہ کی سہولت پر نظر کرکے وقت گزاری کررہا ہوں۔ ذرہ صحت اعتدال پر آئے تو اڑجانے کے لئے پرتول رکھے ہیں۔
	حضرت مولانا عبدالمجید انور دل وجان سے مجلس تحفظ ختم نبوت کے قدر دان بلکہ فدائی تھے۔ ملتان آتے تو دفتر تشریف لاتے۔ مجلس کی کانفرنسوں میں شرکت فرماتے۔ برطانیہ سے پاکستان گئے تو حضرت مولانا قاری محمدیاسین صاحب کے جامعہ دارالقرآن فیصل آباد میں ختم بخاری کی تقریب میں مہان خصوصی تھے۔ اگلے دن چناب نگر مدرسہ ختم نبوت میں دارالمبلغین کی کلاس ردقادیانیت کورس کا افتتاح تھا۔ تشریف لائے۔ مولانا محمداسماعیل شجاع آبادی نے نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر آپ سے افتتاحی خطاب کی درخواست کی۔ بیان کیا تو نور بھرا ماحول بن گیا۔ فلحمدﷲ!
	آپ نے برطانیہ ختم نبوت کانفرنس میں بیماری وعلالت کے باوصف کبھی ناغہ نہیں کیا۔ ایسا بیان کرتے کہ کانفرنس میں جان ڈال دیتے۔ مولانا مفتی سعیداحمد جلال پوری نے آپ کی وفات کی خبرسناتے ہوئے یہ فرمایا اور خوب فرمایا کہ مولانا عبدالمجیدانورؒ کی وفات سے برمنگھم کانفرنس 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter