Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

109 - 142
خیرالمدارس سے فراغت کے بعد آپ مختلف مدارس میں درجہ کتب کے استاد رہے۔ پھر جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں تشریف لائے۔ حضرت مولانا محمدعبداﷲ رائے پوریؒ کی صدارت، حضرت مولانا فاضل حبیب اﷲ رشیدی کی نظامت میں عرصہ تک تشنگان علوم اسلامیہ کی جامعہ رشیدیہ میں پیاس بجھاتے رہے۔ آپ ایک اعلیٰ درجہ کے مدرس تھے۔ افہام وتفہیم کا حق تعالیٰ نے آپ کو ملکہ عطا فرمایا تھا۔مشکل سے مشکل مسئلہ کو چٹکیوں میں سمجھانے پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔
	آپ تدریس کے ساتھ ساتھ بہت اچھے واعظ وخطیب بھی تھے۔ خطابت میں مجاہد ملت حضرت مولانا محمدعلی جالندھریؒ آپ کا آئیڈیل تھے۔ البتہ تقریر میں برموقعہ شعر پڑھنے میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کا طرز اپناتے تھے۔ آپ کی تقریر عام فہم اور مؤثر ہوتی تھی۔ ایک زمانہ میں اکثر وبیشتر پنجاب کے بڑے مدارس کے سالانہ اجتماعات پر بڑی خصوصیت سے آپ کے وعظ ہوتے تھے۔ عوام وخواص آپ کے بیان میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ بیان میں پندونصائح، موعظت کے واقعات، ذکرالٰہی وفکرآخرت، اعمال صالحہ کی ترغیب، سنت رسولؐ کے احیائ، محبت نبویؐ، مدارس عربیہ کی اہمیت وضرورت، صالح معاشرہ کی تشکیل، بدعات ورسوم کی قباحت پر بیان کرتے تو بہت اچھا ماحول پیدا کردیتے۔ ہر جلسہ میں اپنے سے پہلے مقرر کی کسی بات کو لے کر بات کو آگے بڑھاتے تو مجمع کو چند منٹوں میں اپنا گرویدہ کرلیتے۔ ایک زمانہ میں جامعہ خیرالمدارس میں تقریر کرنابڑے اعزاز کی بات ہوتی تھی۔ حضرت مولانا خیرمحمدجالندھریؒ مقررین کے انتخاب میں بہت سارے امور کو مدنظر رکھتے تھے۔مولانا عبدالمجید انورؒ کا خیرالمدارس کے جلسہ میں اہمیت کے ساتھ بیان ہوتا تھا جو آپ کی کامیاب خطابت کے لئے بطور سند کے وزنی دلیل ہے۔
	حضرت مولانا عبداﷲ رائے پوریؒ کے انتقال کے بعد جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں اضمحلال درکرگیا۔ مولانا علامہ غلام رسولؒ، مولانا مفتی مقبول احمدؒ، مولانا سیدنذر محمدشاہؒ نے جامعہ رشیدیہ سے علیحدگی اختیار کی تو مولانا عبدالمجید انورؒ بھی ان کے ساتھ جامعہ رشیدیہ سے اٹھ آئے۔ مولانا سید نذر محمدشاہ مرحوم نے تو الگ سے اپنا ادارہ انوار رحمت کے نام پر قائم کرلیا جو اب بھی بڑی کامیابی سے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ باقی حضرات نے نہر کے دوسرے کنارے پر جامعہ علوم شرعیہ قائم کرلیا۔ یہاں بھی مولانا عبدالمجید انورؒ بنیادی اور منتہی کتب کی تدریس کے فرائض سرانجام دینے لگے۔مولانا مفتی مقبول احمد برطانیہ کے اہم شہر گلاسگو میں خطیب مقرر ہوگئے۔ مولانا علامہ غلام رسولؒ کو آخرت کا بلاوا آگیا تو علوم شرعیہ کے سب سے سینئراستاذ ومدرس حضرت مولانا عبدالمجید انورؒ ہی رہ گئے۔ آپ نے ان حالات میں جامعہ علوم شرعیہ میں تدریس کے بانکپن کو برقرار رکھا۔
	حضرت مولانا عبدالمجید انورؒ بنیادی طور پر تدریس وخطابت کے آدمی تھے۔ انتظامی امور میں زیادہ جوہر آپ کے کھل کر سامنے نہ آئے۔ مزاجاً ہنس مکھ انسان تھے۔ بات سے بات پیدا کرنی، اس میں رنگ بھرنا اور مجلس کو کشت زعفران بنانے کے بھی ماہر تھے۔مزاج کے سٹریل باالکل نہ تھے۔ البتہ ہنسوڑ بھی نہ تھے۔تاہم کسی سے ٹھن گئی تو گرہ کے بھی مضبوط تھے۔ اکھاڑ بچھاڑ نقد وجرح میں پہل تو آپ نہ کرتے لیکن چونچ اڑ گئی تو دھیمے انداز میں خوب لتے لیتے۔ لیکن انداز ہمیشہ عالمانہ رہتا۔ کبھی بھی عالمانہ وقار کو مجروح نہ ہونے دیا۔
	حضرت مولانا عبدالمجید انورؒ کو بہت صدمات سے دوچار ہونا پڑا۔ جامعہ رشیدیہ سے علیحدگی، نوعمر بیٹے کی حادثاتی جدائی پر آپ سراپا صبروشکر بن گئے۔ تمام صدمات کو برداشت کیا اور بڑے وقار کے ساتھ برداشت کیا۔ اب علوم شرعیہ میں آپ گرامی قدر رفقاء کے بعد اکیلے رہ گئے تو غم غلط کرنے کے لئے برطانیہ منتقل ہوگئے۔ حضرت مولانا مقبول احمدصاحب سے آپ کی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter