Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

10 - 142
آنحضرتﷺ کی جدائی میں بے قراری اوراس پر انعام
	حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم (صحابہؓ) آپﷺ کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ بھی تھے۔ اتنے میں آپؐ اٹھ کر اچانک چل دئیے۔ ہم نے انتظار کیا۔ مگر خاصی دیر تک آپؐ تشریف نہ لائے تو ہمیں تشویش ہوئی کہ کہیں کسی دشمن نے کوئی تعرض نہ کیا ہو۔ کوئی واقعہ نہ پیش آگیا ہو۔ اس فکر میں ہم پریشان ہوگئے اور سب سے پہلے میں گھبرایا۔ میں آپؐ کی تلاش میں چل دیا۔ انصار کے ایک باغ میں پہنچا۔ (خیال ہوا کہ شاید اس میں آپؐ تشریف فرما ہوں گے۔) میں باغ کے ارد گرد پھرا تمام راستے بند تھے۔ پانی کے جانے کی ایک نالی تھی۔ اس سے سمٹ سمٹاکر اندر چلا گیا۔ باغ میں آپؐ تشریف فرما تھے۔ آپؐ نے دیکھتے ہی فرمایا کہ ابوہریرہؓ آگئے؟ میں نے عرض کی جی ہاں یا رسول اﷲؐ۔ فرمایا کیوں آئے؟۔ عرض کی کہ آپؐ نے واپسی میں تاخیر کردی ہمیں تشویش ہوئی۔ ہم سب گھبرا گئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا اور تلاش میں چل پڑا ۔ اس باغ پر پہنچا تو باغ کی نالی سے لومڑی کی طرح سمٹ کر (یہ حضرت ابوہریرہؓ کے اپنے الفاظ ہیں) اندر آگیا۔ باہر باقی لوگ موجود ہیں۔ اس وقت آپؐ پر عجیب کیفیت طاری تھی۔ رحمت خدا وندی کا خصوصی استحضار تھا۔ (رحمت کا دربار جوش میں تھا) خلوت میں اپنے مولا سے راز ونیاز میں مشغول تھے۔ آپؐ نے اپنے نعلین مبارک دے کر فرمایا کہ ان کو لے جائو۔ (بطور سند کے) اور باہر جو بھی کوئی ایسا شخص ملے جو دل کے یقین سے لا الہ الا اﷲ کی گواہی دیتا ہو اسے جنت کی خوشخبری سنادو۔ میں باہر آیا تو سب سے پہلے حضرت عمرؓ ملے اور پوچھا یہ نعلین مبارک کیسے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپؐ نے یہ عنایت فرمائے ہیں اور فرمایا ہے کہ جو شخص لاالہ الا اﷲ دل سے پڑھتا ہو اسے جنت کی بشارت سنا دو۔ یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ نے میرے سینہ پہ زور سے ہاتھ مارا کہ میں چت گرگیا۔ روتا ہوا آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ کے پوچھنے پر ساری بات بتادی۔ اتنے میں عمرؓ بھی آگئے۔ آپؐ نے یہ ماجرا سنا کر عمرؓ سے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟ حضرت عمرؓ نے عرض کی میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں مجھے ڈر لگا کہ کہیں صرف لاالہ الا اﷲ کہنے پر جنت کی بشارت سن کر لوگ اعمال کو نہ چھوڑ دیں۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا (اچھا ایسا ہی کرو۔ چھوڑے رکھو) خوشخبری دے کر اعمال سے نہ ہٹائو۔(مسلم)
	حضورﷺ پر اس وقت خاص کیفیت طاری تھی۔ آپؐ کی رحمت کا دریا جوش میں تھا کہ رب کریم کی عنایات بے پایاں پر نظر تھی۔ اس لئے اس مصلحت کی طرف نظر نہ فرمائی جو مصلحت اﷲ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں ڈال دی۔ جب حضرت عمرؓ نے اس اعلان کو خلاف مصلحت سمجھا تو آپؐ نے بھی مصلحت کی توثیق فرمادی اور تائید کردی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیر کو مرید یا استاد کو شاگرد کوئی مشورہ دے اور بڑا اس مشورہ کو صائب سمجھے تو قبول کرلے۔ یہ سنت نبویؐ ہے۔
آپﷺ کی وصیت
	(الف)……حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے مجھے فرمایا:۱… ہر ماہ تین روزے رکھا کرو۔ ۲…سونے سے قبل وتر پڑھ لیا کرو۔ ۳…چاشت کی کم از کم دو رکعت پڑھ لیا کرو۔ 
	(ب)……حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار آپؐ نے فرمایا کون ہے جو میرے ان کلمات کو سنے پھر ان پر عمل کرلے یا ایسے شخص تک پہنچا دے جو ان پر عمل کرے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں فوراً بول اٹھا کہ یارسول اﷲﷺ میں حاضر ہوں۔ یہ کام میں کرسکتا 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter