Deobandi Books

تذکرہ خواجۂ خواجگان ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

84 - 251
کبھی نہ بھولے گا کہ فیصلہ کے بعد قادیانی وکیل تو کسی عقبی دروازہ سے کھسک گئے اور باقی قادیانی ایسے گم ہوئے جیسے مرزا قادیانی کے دل سے حیاء گم ہوگئی تھی۔ اس دو صفحاتی فیصلہ میں لکھا تھا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں دیا جائے گا۔ جسٹس آفتاب ریٹائرڈ ہوگئے تو اس کے بعد جسٹس فخرعالم صاحب چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت بنے۔ وہ بینچ کے بھی سینئر رکن تھے۔ انہوں نے اس مقدمہ کا تفصیلی فیصلہ ۲۹؍اکتوبر ۱۹۸۴ء کو سنایا۔ جو اردو ایڈیشن کے ۲۴۷صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ فیصلہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
	اس فیصلہ نے قادیانیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے سامنے بند باندھ دیا۔ قادیانیوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ مرزائیت رسوا ہوگئی۔ اسلام جیت گیا۔ کفر ہارگیا۔ قل جاء الحق وزحق الباطل کی عملی تفسیر مسلمانوں نے ایک بار پھر اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ فاالحمدﷲ اوّلا وآخراً!
	وفاقی شرعی عدالت نے آرڈیننس کو قرآن وسنت کے مطابق قرار دے دیا۔ اس ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ کے ذریعہ پریس آرڈیننس میں بھی ترمیم کردی گئی تھی۔ جس کے تحت الفضل ربوہ بند ہوگیا تھا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی صاحبزادی بیگم زرداری محترمہ بے نظیر بھٹو تشریف لائیں تو پریس کی آزادی کے ضمن میں اقدامات کرتے ہوئے پریس آرڈیننس کی ترمیم کو اڑا دیا۔ جناب صدر مملکت غلام اسحاق خان نے اس پر تائیدی دستخط کردئیے۔ الفضل جاری ہوگیا۔ محترمہ بے نظیر اور اسحاق خان کی اس حرکت کا ہمارے پاس سوائے افسوس کے اور کوئی علاج نہ تھا۔ حضرت مولانا فضل الرحمن ان دنوں قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔ انہوں نے بڑی کوشش وسعی کی۔ مگر بے نظیر بھٹو اور وزیر داخلہ اعتزاز صاحب نے پٹھے پر ہاتھ نہ دھرنے دیا۔ الفضل نے اپنی ترنگ میں آکر چوکڑی بھرنی چاہی۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے اسے مقدمات میں الجھادیا۔ اسے چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔
۵۱…کیس نمبر۲…قادیانی اپیل، دراپیل بنچ سپریم کورٹ وفاقی شرعی عدالت
	’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ کو قادیانیوں نے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے اسے قرآن وسنت کی تعلیمات اور بنیادی حقوق کے منافی قرار دینے کی درخواست کی۔ فاضل عدالت کے پانچ جج صاحبان نے اپنے مفصل اور متفقہ فیصلہ کے ذریعے قادیانیوں کی اپیلوں کو خارج کر دیا اور آرڈیننس کو قرآن وسنت اور بنیادی حقوق کے مطابق قرار دیا۔ قادیانیوں نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی وفاقی شرعی اپیلانٹ بنچ میں کالعدم قرار دینے کی اپیل کی۔
	سپریم کورٹ کے ۵رکنی اپیل بنچ نے اس کی سماعت کی۔ جناب جسٹس محمد افضل اس کے چیئرمین تھے۔ اراکین میں جسٹس نسیم حسن شاہ (چیف جسٹس آف پاکستان بھی بعد میں بنے) جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی شامل تھے۔ سماعت کے لئے جونہی کوئی تاریخ نکلتی، قادیانی درخواست دے کر سماعت رکوا دیتے۔ اڑھائی سال تک اسی طرح ہوتا رہا۔ بالاخر ۱۰؍جنوری ۱۹۸۸ء کو اس کی راولپنڈی سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی۔ قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں نے پھر دجل سے کام لیا۔ عدالت کے کام میں روڑے اٹکائے۔ غیرضروری طوالت دینے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال میں لائے اور بالآخر ایک درخواست کے ذریعہ عدالت سے اپنی اپیلوں کو واپس لینے کی استدعا کی۔ قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں کی واپسی اپیلوں کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ فیصلہ تحریر فرمایا۔ یہ فیصلہ مسٹر جسٹس محمد افضل نے جو اس وقت اپیل بنچ کے چیئرمین تھے اور بعد میں چیف جسٹس آف پاکستان بنے، نے تحریر فرمایا اور باقی حج صاحبان نے اس سے اتفاق کیا۔ فیصلہ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter