٭… مسلمان وکلاء کے دلائل سے متاثر ہوکر کچھ قادیانیوں نے حضرت مولانا عبدالقادر آزاد خطیب بادشاہی مسجد لاہور کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ (اخبارات میں خبریں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں)
قومی پریس نے ہر روز کی کاروائی شہ سرخیوں سے شائع کی۔ جس سے اندرون وبیرون ملک تمام مسلمانوں کی نگاہیں اس کیس کی طرف لگ گئیں۔
اﷲ رب العزت کی رحمت وکرم اور رحمت دوعالمﷺ کی توجہات عالیہ امت مسلمہ کے لئے واحد سہارا تھیں۔ قادیانی اپنے طور پر اندرون وبیرون ملک سے دبائو بڑھا رہے تھے۔ ملک کی تمام بے دین لابیاں اسے اپنے لئے موت وحیات کا مسئلہ بنائے کھڑی تھیں۔ جنرل محمدضیاء الحق مرحوم ایک مارشل لاء کے ذریعہ برسراقتدار آئے تھے۔ اس کی آمریت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے سیکولر جماعتوں کے بعض کارکنوں کو قادیانیوں نے خوب خوب استعمال کیا۔ تاکہ کسی طرح ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ منسوخ ہو جائے۔ ادھر عدالتی کاروائی جاری تھی۔
غرض یہ کہ کفر اور اسلام کا معرکہ تھا۔ حق وباطل کی جنگ تھی۔ مسلمان اور قادیانی مقابل میں برسرپیکار تھے۔ قادیانی اپنے طور پر خوش تھے کہ جسٹس آفتاب پہلے ڈیرہ غازی خان کی ایک مسجد کے کیس میں قادیانیوں کے حق میں فیصلہ دے چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے زمانہ میں یہودیوں کی ایک تنظیم فری میسن پر پابندی لگادی تھی۔ یہودیوں اور ان کے آلہ کاروں نے لاہور ہائیکورٹ میں اس پابندی کو چیلنج کیا تو اسی جسٹس آفتاب نے یہودی تنظیم پر سے پابندی ختم کردی تھی۔ ایسے ڈھب کے جج صاحب کا قادیانیوں کی مطلب برآری کے لئے مفید ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا۔ آخر حق تعالیٰ کی شان کریمی کا اظہار ہوا۔ رحمت دوعالمﷺ کی دعائیں امت کے کام آگئیں اور ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۴ء کو اسی جسٹس آفتاب صاحب کے قلم سے قادیانیوں کی اپیلیں خارج کردی گئیں۔ قادیانیوں کو ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور امت مسلمہ کو ایک بار پھر جھوٹی امت قادیانیت پر فتح حاصل ہوگئی۔ ۱۲؍جولائی کو پہلے وقت جب بحث سمیٹی گئی تو تمام حاضرین ہال کے باہر آگئے۔ جج صاحبان فیصلہ لکھنے کے لئے عدالت سے ملحقہ ریٹرننگ روم میں چلے گئے۔ عدالت کے لان میں ایک پیپل کے درخت کے زیر سایہ علماء ومشائخ جمع تھے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ اور قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے خلیفہ مجاز حضرت سیدانور حسین نفیسؒ ہر دو بزرگوں نے زمین پر بیٹھتے ہی سرجھکائے اور مراقبہ میں چلے گئے۔ اس منظر کی آسان تعبیر یہ ہوگی کہ عدالت کے اندر جج صاحبان فیصلہ کے لئے قلم تول رہے تھے اور عدالت سے باہر یہ بزرگ اپنے رب کی رحمتوں کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ اﷲ رب العزت کا کرم وفضل ہوا کہ جسٹس آفتاب نے دو صفحاتی اجمالی فیصلہ لکھا۔
باقی تمام جج صاحبان نے دستخط کئے۔ متفقہ طور پر فیصلہ ہوا۔ وکلاء کو اندر بلالیاگیا۔ اہل اسلام کے وکیل اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی سعادت حاصل کرنے والے ایڈووکیٹ جناب سید ریاض الحسن گیلانی جب فیصلہ سن کر عدالت کے کمرے سے وکٹری کا نشان بنائے باہر آئے تو مسلمانوں نے عشق نبویؐ سے سرشار ہوکر صدائے اﷲ اکبر بلند کی۔ نعرہ تکبیر کی آواز پر حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ اور سید انورحسین نفیسؒنے مراقبہ سے سراٹھایا تو دونوں بزرگوں کے چہرہ پر خوشی کے آنسوئوں کی جھڑیاں لگی ہوئی تھیں۔
حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور حضرت مولانا محمدشریف جالندھریؒ فیصلہ سنتے ہی سربسجود ہوگئے۔ اسلام زندہ باد، قادیانی مردہ باد۔ یہ منظر