مولانا سمیع الحق، قاضی عبداللطیفؒ کی کوششوں کے مسودہ آج تک کسی اجلاس میں پیش نہیں ہوا۔ مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ اس وقت عارضی طور پر اولیت محمد اسلم قریشی کی بازیابی کو ہے۔ تاہم قانون سازی کے لئے بھی مکمل جدوجہد جاری رکھی جائے۔ (عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مجلس شوریٰ کے رجسٹر کو سامنے رکھ کر کاروائی قلمبند کرتے ہوئے بہت آگے نکل گئے۔ کچھ ضروری واقعات رہ گئے۔ ان کا تذکرہ ہو جائے پھر دوبارہ اس ترتیب کو شروع کریں گے۔ ترتیب کے ٹوٹنے پر معذرت)
۴۵…حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ کی گرفتاری ورہائی
مئی۱۹۸۲ء کی آخری رات اسلام آباد جامع مسجد دارالسلام میں ختم نبوت کانفرنس تھی۔ جس میں حضرت اقدس مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ، جناب راجہ ظفر الحق، مولانا عبدالشکورؒ دین پوری، مولانا محمد لقمانؒ علی پوری، قاری محمد امینؒ راولپنڈی، مولانا عبدالرؤفؒ جتوئی، جناب سید امین گیلانیؒ، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی اور دیگر حضرات کے بیانات ہوئے۔ کانفرنس سے قبل مولانا قاری احسان اﷲ نے ارشاد فرمایا کہ میری مسجد جامع قاسمیہ F-8-3 کے عقب میں قادیانی جماعت کا گیسٹ ہاؤس ہے۔ اس میں قادیانی جماعت کا چیف گرو مرزا ناصر احمد اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ ہنی مون منانے کے لئے آیا ہوا ہے۔ قادیانی گیسٹ ہاؤس اور میری مسجد کے درمیان صرف سڑک کا فاصلہ ہے۔ اگر کل وہاں کانفرنس ہو جائے تو بہت مناسب ہوگا۔ چنانچہ دارالسلام کی مسجد ہی میں اعلان کر دیا گیا کہ یکم جون۱۹۸۲ء بعد از مغرب قاری احسان اﷲ صاحب کی مسجد میں کانفرنس ہوگی۔ چنانچہ کانفرنس ہوئی۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ کی زیرصدارت مولانا عبدالشکورؒ دین پوری، مولانا محمد لقمانؒ علی پوری، مولانا قاری محمد امینؒ، جناب سید امین گیلانیؒ کے بیانات ہوئے۔ راقم اﷲ وسایا نے اس موقع پر جو خطاب کیا وہ کیسٹ سے نقل کر کے جناب ساجد اعوان نے ارسال کیا۔ جسے ’’حقائق بولتے ہیں‘‘ کے نام پر مانسہرہ کی جماعت نے شائع کیا۔ یہ بیان براہ راست مرزاناصر سن رہا تھا۔ اس خطاب کے دوران مرزا ناصر پر دل کا دورہ پڑا۔ جو آگے چل کر اس کی موت کا سبب بن گیا۔ جونہی ختم نبوت کانفرنس ختم ہوئی۔ مولانا عبدالشکورؒ دین پوری، قاری محمد امینؒ اور حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ رات بھر آپؒ تھانہ میں رہے۔ اگلے دن راجہ ظفر الحق کو معلوم ہوا۔ انہوں نے پولیس آفیسران کو کہا کہ تم جانتے ہو تم نے کس شخصیت کو گرفتار کیا ہے؟ یہ حضرت قبلہ خواجہ خان محمد صاحبؒ ہیں۔ جنہیں ملنے کے لئے دو بار جنرل ضیاء الحق درخواست کر چکے ہیں اور آپ نے ملاقات نہیں کی۔ انہیں فوراً سے بھی پہلے رہا کر دو۔ ورنہ ضیاء الحق صاحب کو معلوم ہوگیا تو تمہاری ملازمت ووردی کی خیر نہیں۔ یوں حضرت خواجہ صاحبؒ نصف رات سے صبح ۹؍بجے تک تھانہ میں سنت یوسفی ادا کرنے کے بعد رہا ہوگئے۔ باقی حضرات کی عدالت سے ضمانتیں ہوئیں۔ قادیانی سربراہ آنجہانی ہوگیا اور کیس سے عدالت نے باقی حضرات کو بھی بری کر دیا۔ حضرت قبلہؒ کی گرفتاری پر مولانا عبید اﷲ انورؒ نے نظام العلماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل ہونے کے ناتے ذیل کا بیان اخبارات کے نام جاری کیا:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
ماہ رواں کی یکم(جون ۱۹۸۲ئ) تاریخ کو اسلام آباد میں قادیانی امت کے سربراہ مرزاناصر احمد کی کوٹھی کے سامنے مسلمانوں کی مسجد میں حضرت مولانا خان محمد صاحب دامت برکاتہم امیر مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی سرپرستی اور موجودگی میں مولانا عبدالشکور دین پوری، مولانا اﷲ وسایا اور راولپنڈی کے سرکردہ علماء کرام نے ایک دینی اجتماع سے خطاب کیا اور قادیانیوں کے بارے میں ملت اسلامیہ کے جذبات کا اظہار کیا۔