امت مسلمہ مختلف فرقوں شیعہ، سنی، اہل حدیث، حنفی، دیوبندی، بریلوی میں بٹ کر اصل مقصد سے دور جا چکی ہے۔ ماضی میں ہمارے بزرگوں نے تمام مسلمان فرقوں کو قادیانیوں کے تعاقب کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ تو اس کے نتائج بہت ہی شاندار نکلے۔ سب سے پہلا مجلس عمل کا قیام ۱۹۵۳ء میں ہوا اور ختم نبوت کے تحفظ کے لئے مثالی کام ہوا۔ دوبارہ ۱۹۷۴ء میں زیرقیادت حضرت بنوریؒ مجلس عمل قائم ہوئی اور قادیانیوں کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور امت مسلمہ کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔ اتحاد امت نے ہمیشہ ہی باطل کے خلاف عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔ ۱۹۷۴ء کے بعد قادیانیوں نے کچھ دیر خاموشی کے بعد دوبارہ تنظیم اور اصراف زر سے کام کرنا شروع کر دیا اور بدقسمتی سے مسلمان فرقوں کے رہنماؤں نے باہمی اختلاف کو ہی مقصد حیات قرار دینا شروع کر دیا۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کا بنیادی مقصد ہی تمام مسلمان فرقوں کااتحاد ہے۔ اس لئے مجلس نے سرتوڑ کوشش کی۔ لیکن وہ موجودہ دور میں ایسے اتحاد کے وجود قائم کرنے میں ناکام رہی اور پھر موجودہ حکومت مارشل لاء میں قادیانیوں کو بے پناہ مراعات سے نوازا گیا۔ قادیانی آئینی طور پر غیر مسلم ہونے کے باوجود برملا کہتے اور لکھتے رہے کہ وہی خالص مسلمان ہیں۔ اہل اسلام کی طرف سے بارہا مطالبہ کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ الٹا قادیانی افسروں کی ترقیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ عبدالسلام سائنسدان اور ڈاکٹر محمود الحسن کی مثال سے واضح ہوتا ہے کہ موجودہ مارشل لاء حکومت قادیانیوں کے خلاف کچھ کرنا نہیں چاہتی۔ محمد اسلم قریشی کو اغوا کر لیا گیا۔ مجلس نے ہر جگہ سے مطالبہ کیا کہ ان کا سراغ قادیانیوں کو تفتیش میں لینے سے ہی ملے گا۔ لیکن حکومت نے قادیانیوں سے پہلو تہی کی۔ اب قیام مجلس عمل میں دو رکاوٹیں ہیں۔ گورنمنٹ قادیانیت نوازی سے اس مسئلہ کو کمزور کرنے کا باعث ہے۔ مسلمان فرقوں کی باہمی مناقشت دن بدن تیز ہورہی ہے۔ کوئی فرقہ بالخصوص بریلوی حضرات جن کی ملک میں اکثریت ہے۔ قطعاً اس طرف نہیں آتے۔ ایسے میں مرکزی شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ مجلس عمل کے قیام کی کوشش جاری رہے اور مولانا تاج محمودؒ فیصل آباد، مولانا حکیم عبدالرحمان آزادؒ، مولانا محمد شریف جالندھریؒ باہم تاریخ مقرر کریں تمام مسلمان فرقوں کے رہنماؤں سے رابطہ قائم کر کے قیام مجلس عمل کی کوشش کریں۔ فیصلہ کیا کہ جماعت کی طرف سے کام میں شدت پیدا کرتے ہوئے ضلعی کانفرنسیں کی جائیں۔ مجلس کے مرکزی رہنما ایسی کانفرنسوں میں شرکت کریں اور دیگر مکاتب فکر کے رہنمائوں کو بھی بلایاجائے۔ تاکہ مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے لئے راستہ ہموار ہو۔ محمد اسلم قریشی کی بازیابی کے لئے ۲۰؍مئی۱۹۸۳ء کی تاریخ برائے اجتماع مقرر کی گئی۔ فیصلہ ہوا کہ بذریعہ اشتہارات ملک بھر میں یوم احتجاج منایا جائے۔ قرار دادیں مرکز اور صوبائی حکومت کو بھیجی جائیں۔ سیالکوٹ میں یوم دعاء کے لئے ایک عظیم اجتماع بلایا جائے۔ ملک بھر سے فدایان ختم نبوت کو شرکت کی دعوت دی جائے۔
۴۴…وفاقی مجلس شوریٰ میں ترمیم ۱۹۷۴ء کے متعلق قانون سازی کی جدوجہد کا جائزہ
مولانامحمد شریف جالندھریؒ نے جنرل ضیاء الحق کی طرف سے قیام مجلس شوریٰ سے لے کر آج تک کی جدوجہد کی تفصیل بیان کی اور کہا کہ وفاقی شوریٰ کے صدر خواجہ محمد صفدر سیالکوٹ کے باشندے ہیں اور قادیانیوں کے متعلق ان کے جذبات مصالحانہ ہیں۔ انہوں نے بلطائف الحیل قانون سازی کے مسودہ کو بحث کے لئے پیش نہیں ہونے دیا۔ خود وفاقی مجلس شوریٰ کا طریق کار اتنا پیچیدہ ہے کہ قیام شوریٰ سے لے کر ہم آج تک ہر اجلاس کے وقت اسلام آباد جاتے رہے۔ مطالبات کے متعلق پمفلٹ ہر رکن شوریٰ تک پہنچائے۔ ملاقاتیں کر کے اراکین کو تیار کیا کہ جب یہ مسودہ پیش ہو تو اس کی تائید کریں۔ تمام اراکین سے ان کے علاقوں میں کارکنان ختم نبوت نے ملاقاتیں کیں۔ تمام اراکین گرمجوشی سے تائید کے لئے تیار ہیں۔ لیکن باوجود قاری سعید الرحمنؒ،