Deobandi Books

تذکرہ خواجۂ خواجگان ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

58 - 251
محمدؒ صاحب کا نام امیرمرکزیہ کے لئے تجویز کیا۔ اس پر پورے ہاؤس نے تائیدی آراء اور تحسین کے جذبات کا اظہار کیا۔ محترم باوا صاحب نے مولانا مفتی احمد الرحمن صاحبؒ، مولانا صوفی اﷲ وسایا صاحبؒ ڈیرہ غازیخان نے مولاناعزیزالرحمن جالندھری اور مولانا عزیزالرحمن جالندھری نے حضرت مولانا محمد عبداﷲ رائے پوریؒ، شیخ الحدیث جامعہ رشیدیہ کا نام نائب امیر کے لئے پیش کیا۔ اس پر ہر ایک مجوز نے مختصر اپنی رائے پر دلائل بھی دئیے۔ اب سوائے استصواب کے چارہ نہ رہا۔ تو حضرت مولانا غلام محمد صاحبؒ مدرسہ قاسم العلوم ڈیرہ غازیخان نے تجویز دی کہ استصواب کی بجائے مناسب ہوگا کہ تینوں حضرات کے متعلق آراء آچکی ہیں۔ اب تمام حضرات، حضرت امیر مرکزیہ قبلہ حضرت صاحبؒ سے استدعا کریں کہ وہ جن کے متعلق فرمادیں وہی نائب امیر ہوںگے۔ استصواب کی ضرورت نہیں۔ اس تجویز کو پورے ہاؤس نے اتفاق سے قبول کر لیا تو حضرت قبلہؒ سے درخواست کی گئی۔ آپ نے نائب امیر کے لئے حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحبؒ کا نام منتخب فرمایا۔ چنانچہ وہ آئندہ تین سال کے لئے نائب امیر منتخب ہوگئے۔
	قارئین کرام! ہمارے حضرت قبلہؒ کی کم گوئی کے تو سب گواہ ہیں۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ کبھی کبھار کسی ضرورت سے حضرت قبلہؒ کو اظہار خیال کی ضرورت پیش آجاتی۔ آپ تمام بحث کو ایک آدھ جملہ میں سمیٹ دیتے تو وہ حاصل مجلس یا یہ آپ کی اصابت رائے کی چمکتی دمکتی تصویر ہوتی تھی۔ یہ آپ کے تقویٰ اور اصابت رائے کے ساتھ ساتھ اﷲتعالیٰ کی ذات سے قوی تعلق کی دلیل ہے۔ ایسے موقعہ پر آپ کی زبان، ترجمان حق کی آئینہ دار ہوتی تھی۔
۲۲…مولانا محمد شریف جالندھریؒ ناظم اعلیٰ
	مولانا محمد شریف جالندھریؒ بہت زیرک، معاملہ فہم، محنتی اور جفاکش، مجاہد فی سبیل اﷲ عالم دین تھے۔ آپ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد رشید تھے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کی جب بنیاد رکھی گئی تو وہ کارروائی بھی مولانا نے لکھی اور جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو اس کی خیرمقدمی قرارداد بھی آپ نے تحریر فرمائی تھی۔ آپ نے پہلے مجلس احرار میں اور پھر مجلس تحفظ ختم نبوت میں کام کیا۔ آپ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے عہد امارت مورخہ ۹؍اپریل ۱۹۷۴ء سے ۲۷؍دسمبر ۱۹۷۷ء تک مجلس کے ناظم اعلیٰ رہے۔ جماعتی فیصلہ کے باعث دسمبر۱۹۷۷ء سے مارچ ۱۹۸۱ء تک کے دور میں مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کو مرکزی ناظم اعلیٰ بنایا گیا اور ان تین سالوں میں قریباً حالات پر حضرت قبلہؒ کی نیم شبانہ دعاؤں نے قابو پالیا۔ تو مارچ ۱۹۸۱ء میں دوبارہ مولانا محمد شریف جالندھریؒ کو حضرت قبلہؒ نے ناظم اعلیٰ نامزد فرمادیا۔
	قارئین! ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت سے قبل مولانا محمد شریف جالندھریؒ کا ناظم اعلیٰ بننا اور ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت سے قبل پھر آپ کا نظامت علیاء کے عہدہ پر فائز ہونا تحریک ختم نبوت کی کامیابی کے لئے قدرت کی طرف سے انتظام ہی کہا جاسکتا ہے تو اس کی تقرری کے لئے حضرت بنوریؒ وحضرت خواجہ خان محمدؒصاحب سے اﷲ رب العزت کا یہ کام لینا بھی یقینا ان ہر دو حضرات کی عنداﷲ مقبولیت کی دلیل ہے۔
۲۳…قبلہ حضرت صاحبؒ اور مجلس کے نئے دفاتر ومراکز کی تعمیر
	۹؍اگست ۱۹۸۱ء کو مجلس کی مرکزی مجلس شوریٰ کا ملتان میں اجلاس ہوا۔ اس میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کے متعلق مطالبات کو ترتیب دینے کا کام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کریں۔ پھر وہ مطالبات، حضرت مولانا محمد رمضان علویؒ راولپنڈی، حضرت مولانا محمد عبداﷲ خطیب لال 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter