جائے۔ دفتر کی صفائی ستھرائی کر کے اسے نماز ورہائش کے قابل بنایا جائے۔ باقی تعمیر ٹھیکدار یا خود کرائیں۔ یہ ثانوی مسئلہ ہے۔ دفتر اسی(۸۰) فیصد تعمیر کے باوجود استعمال کے قابل نہیں۔ اسے استعمال کے قابل بنایا جائے۔ اس کو اوّلیت ہے۔ اب مشکل یہ درپیش تھی کہ ٹھیکدار نے بلڈنگ میں چوکیدار نگران رکھا ہوا تھا۔ اس کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔ ٹھیکدار کی چوکیدار کو ہدایت تھی کہ میری اجازت بغیر کسی کو بلڈنگ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ ہم جاتے ہیں چوکیدار شور کرتا ہے۔ بات تھانہ تک جاتی ہے تو مجلس کی سبکی نہ ہو۔ سردار فضل محمودؒ، مولانا تاج محمودؒ صاحب نے فرمایا کہ مقدمہ کی صورت میں پولیس سے ہم نبٹیں گے۔ آپ دفتر ٹھیکدار سے واگذار کرائیں۔ چنانچہ مختلف احباب کو شام کے وقت دفتر تغلق روڈ بلایا گیا کہ صبح نماز کے بعد نئے دفتر کو کھلوائیں گے۔
ہمارے مخدوم حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ دو دن کی رخصت پر گھر گئے ہوئے تھے۔ جس شام کو احباب جمع ہوئے۔ آخری مشورہ کے لئے سردار فضل محمود خانؒ سے مولانا عزیزالرحمن جالندھری نے رابطہ کیا تو سردار فضل محمودؒ نے مولانا عزیزالرحمن صاحب سے پوچھا کہ خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ سے آپ حضرات نے قبضہ کے لئے اجازت طلب کی تھی۔ تو حضرت خواجہ صاحبؒ نے کیا فرمایا؟ مولانا عزیزالرحمن جالندھری نے فرمایا کہ مختلف آراء سامنے آنے کے بعد حضرت قبلہؒ نے فرمایا کہ: ’’چکی کا ہتھہ ہاتھ میں ہونا ضروری ہے‘‘ تو سردار فضل محمودؒ جو ریٹائرڈ ایس۔پی تھے اور اعلیٰ حضرتؒ وحضرت ثانیؒ کے دور سے خانقاہ سراجیہ سے وابستہ تھے۔ پھول کی طرح شگفتہ ہوگئے۔ چہرہ پر خوشی سے مسکراہٹ چھا گئی۔
مولانا عزیزالرحمن جالندھریؒ سے فرمایا کہ مولانا! میں اس خانقاہ سے تین ادوار سے وابستہ ہوں۔ ان حضرات کی زبان پر تقدیر بولتی ہے۔ حضرت قبلہؒ کا یہ فرمانا کہ: ’’چکی کا ہتھہ ہاتھ میں ہونا ضروری ہے‘‘ یہ سند ہے۔ آپ اطمینان سے صبح کاروائی کا آغاز کریں۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ایک ککھ بھی آپ کے اوپر نہیں اڑے گا۔ چنانچہ رات تغلق روڈ دفتر میں رہے۔ صبح نماز کے بعد حضوری باغ روڈ، دس بارہ ساتھی گئے۔ جھاڑو، کسّی، تغاری ہاتھ میں لئے۔ دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ چوکیدار نے دروازہ کھولا۔ غالباً یہ بدھ کا روز تھا۔ مولانا عزیزالرحمن جالندھری نے چوکیدار سے فرمایا کہ صفائی کرانی ہے۔ کراچی کے مہمان تشریف لا رہے ہیں۔ جمعہ کا آغاز کرنا ہے۔ چوکیدار بغیر ایک لفظ کہے مان گیا۔ اب صفائی شروع ہوگئی۔ اوپر کے کمرے جو مکمل تھے ان کی صفائی کر کے مولانا عبدالرحیم اشعرؒ کا وہاں دفتر قائم کر دیا۔ پرانے دفتر سے کتب خانہ، نئے دفتر منتقل کر دیا۔ تین چار گھنٹوں میں نیا دفتر رہائش کے قابل ہوگیا۔
ٹھیکدار کے ذمہ چوکیدار کی کچھ تنخواہ تھی۔ وہ مولانا عزیزالرحمن صاحب نے ادا کر دی تو وہ اہلیہ سمیت پرانے دفتر منتقل ہوگیا۔ اسی روز سپیکر نصب کر کے ظہر کی جماعت کا اہتمام ہوگیا۔ دن رات ایک کر کے ہر چند کہ ابھی مسجد کا فرش نہ پڑا تھا۔ اس کا روڑا برابر کیا۔ صفیں بچھانے کے لئے قابل کر کے جمعہ کا اعلان کر دیا۔ کراچی سے مولانا محمد بنوریؒ، خانقاہ شریف سے حضرت قبلہؒ جمعہ کو تشریف لائے تو ’’چکی کا ہتھہ ہاتھ میں تھا‘‘ اب جب سوچتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے حضرت قبلہؒ کتنے مستجاب الدعوات تھے۔ کہاں وہ ٹھیکدار کی تعّلیاں۔ ادھر مجلس کے حضرات کا مختلف الرائے ہونا۔ اس کے باوجود نہ پتہ ہلا، نہ ککھ اڑا اور یہ معرکہ مار لیا گیا۔ یہ صرف حضرت قبلہؒ کی کرامت تھی اور بس۔ مولانا محمد شریف جالندھریؒ کو اس کاروائی کا گھر پر معلوم ہوگیا۔ وہ دوروز بعد تشریف لائے تو پرانے دفتر جانے کی بجائے نئے دفتر تشریف لائے۔ ہم ٹاٹ بچھائے تپائیاں لگائے، دفتر قائم کئے ہوئے تھے۔ مولانا اندر داخل ہوئے تو مسکرائے اور فرمایا ماشاء اﷲ میرے شیروں نے اکیلے یہ میدان فتح کر لیا۔ چلو ٹھیک ہوا۔ اسی میں خیر ہوگی۔ ایک تپائی اٹھائی