Deobandi Books

تذکرہ خواجۂ خواجگان ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

55 - 251
حاجی بلند اخترؒ اور ادھر کراچی سے باوا صاحب نے بھی آنا تھا۔ بہت حد تک امکان تھا کہ معاملہ پھر نہ الجھ جائے۔ عشاء کے بعد کھانا ہوا۔ حضرت قبلہؒ نے یہ رات سردار فضل محمود صاحبؒخاکوانی کے مکان پر گذارنا تھی۔ اگلے روز ۹؍بجے اجلاس شروع ہوا۔ تمام مبلغین حضرات اور اجلاس کے موقعہ پر دیگر ملنے والوں سے ہال کمرہ خالی کرا لیا گیا۔ تاکہ اگر اجلاس میں آواز بلند ہوتو باہر کوئی ساتھی سن نہ سکے۔ اجلاس تغلق روڈ کے دفتر کے کمرہ میں شروع ہوا۔ فون پر فقیر راقم کی ڈیوٹی تھی۔ ۱۰؍بجے، ۱۲؍بجے، ۲؍بجے دو تین بار ڈاکٹر خالد خاکوانیؒ کا فون آتا رہا کہ اجلاس کی کیا صورت حال ہے؟۔ فقیر عرض کرتا کہ خیریت ہے کمرہ بند ہے۔ اجلاس شروع ہے۔ ظہر کے قریب اجلاس ختم ہوا۔ کھانا رکھا گیا۔ سب حضرات کھانا میں شریک ہوئے۔ دوران کھانا حدیث الطعام میں وہی پیار ومحبت، گپ شپ۔ باہمی اعتماد، اخوت کے مناظر۔ گویا اختلاف نام کی کوئی چیز ہی نہ تھی۔ کھانا سے فارغ ہوئے۔ ظہر کی نماز پڑھی۔ ڈاکٹر خالد خاکوانیؒ حضرت قبلہؒ کو لینے آئے تو پھر فقیر سے دریافت کیا کہ اجلاس کیسے رہا؟۔ فقیر نے عرض کیا کہ فیصلوں کی تو بھنک نہیں پڑی کہ کیا ہوئے۔ البتہ یہ کہ باہمی پیار ومحبت سے پتہ چلتا ہے کہ خیریت ہی رہی۔ اس پر ڈاکٹر خالد صاحب نے فرمایا خیر ہی ہوگی اور پھر انہوں نے بتایا کہ حضرت قبلہؒ عشاء سے لے کر فجر کی نماز تک پوری رات مصلے پر رہے۔ ایک منٹ کے لئے آرام نہیں فرمایا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اجلاس غیر معمولی ہے۔ اس کا حضرت قبلہؒ کی طبیعت پر اثر ہے۔
	قارئین کرام! واقعی اﷲ رب العزت نے کرم فرمایا۔ پوری رات حضرت قبلہؒ کے جاگنے کو اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمایا کہ صبح اجلاس میں تمام گتھیاں خود بخود سلجھتی گئیں اور جب اجلاس ختم ہوا تو تمام حضرات کے قلوب سے تمام اختلاف دور ہو چکا تھا۔ یہ حضرت قبلہؒ کی کرامت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ اب یہاں پہنچ کر دل مسوس رہا ہے کہ اب مجلس کے لئے پوری پوری رات جاکر دعائیں کرنے والی شخصیت کون ہوگی؟۔
۱۹…دفتر مرکزیہ کی تعمیر اور حضرت قبلہؒ کی کرامت
	عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا مرکزی دفتر ملتان، لوہاری گیٹ، کچہری روڈ اور قدیر آباد کرایہ کے مکان میں رہا۔ تغلق روڈ ملتان پر مجلس کے ملکیتی مرکزی دفتر کی تعمیر حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی مساعی جمیلہ کی مرہون منت ہے۔ جب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ بنے تو حضوری باغ روڈ پر پہلے پچاس مرلہ زمین خرید کی گئی۔ (موجودہ گرین بیلٹ کا حصہ بعد میں خرید کیاگیا) اس پر سہ منزلہ دفتر مرکزیہ کی تعمیر کا حضرت شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے اہتمام فرمایا۔ جس ٹھیکدار کو تعمیر کا ٹھیکہ دیا وہ لاہور کا تھا۔ قریباً اسی(۸۰)فیصد حصہ مکمل ہوگیا۔ بیس فیصد حصہ باقی تھا کہ ٹھیکدار نے مطالبہ کر دیا کہ مہنگائی ہوگئی ہے۔ ٹھیکہ کے ریٹ بڑھائے جائیں۔ سردار میر عالم لغاری، مولانا تاج محمودؒ، حاجی عبدالقیوم مدنی وغیرہم حضرات کا مؤقف تھا کہ اسے ادائیگی بروقت ہوتی رہی۔ اگر تاخیر ہوئی تو اس کا اپنا قصور ہے۔ اسی تاخیر میں ریٹ بھی بڑھے تو وہ خود ذمہ دار ہے۔
	جبکہ مولانا محمد شریف جالندھریؒ کا موقف تھا کہ یہ مجلس کا مخلص پرانا ساتھی ہے۔ اس کے ساتھ رعایت کی جائے۔ مجلس کے حضرات کی دو آراء سامنے آجانے کا ٹھیکہ دار کو بھی علم ہوگیا۔ وہ بگڑ گیا۔ پہلے منتیں کرتا تھا۔ اب قانون، عدالت کے راستے اسے سوجھنے لگے۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کا وصال ہوگیا تھا۔ ۱۰،۱۱؍فروری ۱۹۸۰ء کے اجلاس شوریٰ میں فیصلہ ہوا کہ نمازیں نئے دفتر میں شروع کی جائیں۔ مولانا تاج محمودؒ، مولانا سید محمد بنوریؒ، مولانا عزیزالرحمن جالندھری، ان حضرات کا خانقاہ شریف میں فیصلہ ہوا کہ ٹھیکدار کو بے دخل کر دیا 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter