قبلہ حضرت صاحبؒ نے جب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت سنبھالی۔ اس وقت ملک میں جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحبؒ کا عہد اقتدار تھا۔ جنرل صاحب نے نوے دن کے اندر الیکشن کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ عہد تو رہا اپنی جگہ۔ موصوف نے سالہا سال تک خود کو حکومت پر براجمان کئے رکھا۔ موصوف نے اوّلا قومی اتحاد کو حکومت میں شمولیت کے لئے دعوت دی۔ تب جماعت اسلامی، جنرل صاحب کی حکومت میں شمولیت کے لئے اتنی بے تاب تھی۔ اگر قومی اتحاد ان کی بات نہ مانتا تو وہ قومی اتحاد کو خیرباد کہنے کے لئے بھی تیار تھے۔ تب قومی اتحاد کے سربراہ مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ تھے۔ مفتی صاحبؒ اور نوابزادہ نصر اﷲ خانؒ نے کڑوا گھونٹ بھرا اور قومی اتحاد نے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جنرل صاحب نے الیکشن ملتوی کیا۔ پھر ریفرنڈم۔ غرض اس دوران دو تین بار ایسے مواقع پیش آئے کہ قادیانیوں کے متعلق جو ترمیم تھی وہ غتربود ہوتی نظر آئی۔ اس موقعہ پر مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت پر فائز ہمارے حضرت قبلہؒ نے کس طرح امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا۔ اس کا نمونہ ذیل کے واقعہ سے آپ محسوس کریںگے۔
پاکستان دو قومی نظریہ کے نام پر بنایا گیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلے الیکشن جداگانہ ہوئے۔ پھر ملک میں مخلوط طریقہ انتخاب نافذ ہوگیا۔ اب جنرل محمد ضیاء الحق نے مخلوط کی بجائے جداگانہ طرز انتخاب کا اعلان کیا۔ جناب بھٹو صاحب مرحوم کے عہد حکومت سے مسلم ووٹروں کے لئے ووٹر فارم میں ایک حلف نامہ شامل تھا۔ بھٹو صاحب اور حضرت مفتی محمودؒ کے درمیان گویا حکومت ومجلس عمل ختم نبوت کے درمیان قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے فیصلہ پر عمل درآمد کی یہ ایک شکل تھی۔ تاکہ قادیانی کسی طرح مسلمانوں میں اپنے ووٹ نہ بنوا سکیں۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں جسٹس مولوی مشتاق حسین نے جناب بھٹو صاحب کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ جنرل صاحب نے اس خوشی میں انہیں چیف الیکشن کمشنر بنادیا۔ اسی وقت قادیانی جماعت کا چیف گرو مرزاناصر تھا۔ وہ رات کی تنہائی میں مولوی مشتاق سے ملا۔ اس کا مطالبہ تھا کہ الیکشن فارم کے حلف نامہ میں ایسی تبدیلی کر دی جائے۔ جس سے کہ قادیانی وہ حلف پر کر کے مسلمانوں میں اپنا ووٹ درج کراسکیں۔ اس کے بدلہ میں مرزاناصر نے وعدہ کیا کہ مولوی مشتاق حسین کو عالمی عدالت میں جج لگوا دیں گے۔ تاکہ پاکستان میں اگر پیپلزپارٹی برسراقتدار آجائے تو مولوی مشتاق حسین سے بھٹو صاحب کے خلاف فیصلہ لکھنے کا انتقام نہ لے سکیں۔ اﷲ رب العزت کی شان بے نیازی کہ اس ملاقات کی مولانا تاج محمودؒ کو بھنک پڑ گئی۔ آپ نے ہفتہ وار لولاک میں اس پر شدید احتجاج کیا۔ مولانا محمد شریف جالندھریؒ نے مرکزی الیکشن آفس سے معلوم کیا۔ ووٹر فارموں میں حلف نامہ کی تبدیلی کا معلوم ہوا۔ مولانا نے درخواست جمع کرائی کہ ووٹر فارموں میں جو پہلا حلف نامہ ہے وہ برقرار رکھا جائے۔ اس میں تبدیلی نہ کی جائے۔ بیوروکریسی نے دیکھا کہ یہ معاملہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ آؤ، دیکھا، نہ تاؤ۔ نئے تبدیل شدہ حلف والے ووٹر فارم شائع کرنے شروع کر دئیے۔ ادھر حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب کی زیر صدارت دفتر مرکزیہ ملتان میں مجلس کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا۔ فیصلہ ہوا کہ حضرت قبلہؒ، مولانا تاج محمودؒ، مولانا محمد شریف جالندھریؒ، مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ سے ملیں اور پھر جنرل محمد ضیاء الحق کو اس گھپلہ سے باخبر کیا جائے اور جو عبارت پہلے تھی۔ جب تک وہ عبارت بحال نہ ہو اس سے ایک حرف کی تبدیلی پر راضی نہ ہوا جائے اور حلف نامہ کی عبارت وہ جو شناختی کارڈ کے فارموں پر موجود ہے۔ وہی ہو۔ اجلاس ختم ہوتے ہی اکتوبر ۱۹۷۸ء کو مولانا محمد شریف جالندھریؒ راولپنڈی گئے۔ تاکہ مفتی صاحبؒ سے وقت لے کر حضرت قبلہؒ اور مولانا تاج محمودؒ کو راولپنڈی بلایا جاسکے۔ صورتحال عرض کی تو مفتی صاحبؒ نے فوری نوابزادہ صاحبؒ کو فون کیا۔ مولانا محمد شریف